وارنسی: دراصل مدرسہ بورڈ نے حالیہ دنوں ایک فرمان جاری کرکے مدارس کے دستاویزات طلب کیے تھے۔ جن مدارس نے اپنی دستاویزات کو مکمل طور سے جمع نہیں کیا ہے ان کے خلاف ایک فرمان جاری کر کے اساتذہ کی تنخواہ کو روکنے کا حکم دیا ہے ہیں۔
اس فرمان کے مطابق جن مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں روکی ہیں ان میں سے سب سے مدراد بنارس سے ہیں جن کی تعداد 9 ہیں۔ خبروں کے مطابق بیشتر مدارس انتظامیہ نے سوسائٹی رجسٹریشن رینیول نہیں کروایا تھا جس کی وجہ سے مدرسہ بورڈ نے اساتذہ کی تنخواہ کو روک دی ہے۔
اس مسئلہ پر خاص بات چیت کرتے ہوئے اترپردیش ٹیچرز ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے جنرل سیکریٹری مولانا دیوان زماں سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار کا یہ فرمان نہ صرف اساتذہ کی حقوق کو پامال کر رہا ہے بلکہ کہ قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ' جس قانون کے تحت یہ فرمان جاری کیا گیا ہے اسی قانون کے دوسرے شق میں موجود ہے کہ اساتذہ کی تنخواہ کو دس دن سے زائد دنوں تک نہیں روکا جاسکتا'۔
انہوں نے کہا کہ اگر غلطی انتظامیہ کے لوگوں کی ہے تو پھر اساتذہ کو کیوں سزا دی جا رہی ہے، ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ مدرسہ رجسٹرار اپنے فرمان پر نظرثانی کریں تاکہ دل جمعی کے ساتھ اساتذہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔'
انہوں نے موجودہ تنا ظر میں کہا کہ' جب سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے تبھی سے افسران کو یہ لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت مسلم مخالف ہے، مدرسہ مخالف ہیں اور اسی وجہ سے آئے دن مدارس کو نئے فرمان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔'
لیکن ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی حکومت مدارس کے تعلق سے کوئی غلط ارادہ رکھتی ہے یا وزیر اعلی سے مدارس کے لوگ بیزاری ہیں، بلکہ مدارس کے لوگ بھی وزیراعلی کو اپنا وزیر اعلی مانتے ہیں اور بی جے پی حکومت کی اس پہل جس کے تحت مدرسہ کی جدیدکاری کا نعرہ دیا تھا اس کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کوششوں میں ہے۔ لیکن افسران کی من مانی کی وجہ سے مدرسہ کے اساتذہ و انتظامیہ دونوں پریشان ہو رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ اس پر قدغن لگانے کے لیے ہم نے وزیراعلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے غور کریں اور افسران کو سخت ہدایت دیں کی مدارس کے لوگوں کو بے جا پریشان نہ کیا جائے'۔