لاک ڈاؤن کا تقریبا ایک برس مکمل ہونے کو ہے۔ سبھی تجارتی کاروبار معمول پر آگئے ہیں، اس کے باوجود اب بھی بنارس کا بنکر اس قدر پریشان ہے کہ لاک ڈاؤن کے وقت جو پرچون یا پان کی دکان کھولا تھا اسی کے بھروسے رہنا پڑ رہا ہے۔ کاروبار کی حالت انتہائی بدتر ہے، اس کی وجہ سے بنکر دوبارہ اپنے کاروبار کی طرف نہیں لوٹ سکے ہیں۔
بنارس کے کچی باغ علاقے کے رہنے والے محمد زبیر پیشے سے بنکر ہیں لیکن گھر میں پرچون کی دکان بھی لگائے ہوئے ہیں۔ محمد زبیر بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں حالات سے عاجز آکر کے گھر چلانے کے لیے پرچون کی دکان کا سہارا لینا پڑا۔ امید تھی کہ کچھ ہی دنوں میں یہ دکان کان بند کر اپنے روایتی کاروبار کی طرف واپس لوٹ جائیں گے لیکن ابھی تک حالات ایسے ہیں ہیں کہ انہیں دکان کی وجہ سے گھر چل رہا ہے۔
کچی پاگل علاقے کے رہنے والے فیض اللہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران جو لوگ حالات سے عاجز آکر دکان کھولے تھے اب بھی بنارس کے مختلف علاقوں میں ایسے دکان مل جائیں گے جو اپنے کاروبار کی طرف واپس نہیں لوٹ آئے اور وہ انہیں دکانوں پر منحصر ہو کر رہے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بنارسی ساڑی باہر نہ ایکسپورٹ ہو پا رہی ہے اور نہ ہی بنارس میں سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہوا ہے جس کی وجہ ہے کہ بنارس کا بنکر حالات سے عاجز ہے۔
پان کی دکان لگانے والے محمد شمیم بتاتے ہیں کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران پان کی دکان کھولی تھی۔ امید تھی کچھ ہی دن میں کاروبار معمول پر آجائیں گے لیکن ایک طویل مدت کے بعد بھی ان کو مایوسی ہی ملی۔ بجلی کی سبسڈی کے لیے اگرچہ سرکار نے اعلان کر دیا ہے لیکن جب بازار میں خرید و فروخت کا سلسلہ ہی نہیں شروع ہوا تو ایسے میں بنکر کرے تو کیا کرے۔
واضح رہے کہ مشرقی اترپردیش میں ہر برس بنارسی ساڑی کے کاروباریوں کی آمدنی تقریبا ڈیڑھ ہزار کروڑ روپے ہے، جس کا 20 فیصد بھی بنکر نہیں مل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنکر انتہائی بد حال ہے۔ مشرقی اترپردیش میں تقریبا بنکاری کاروبار سے تقریبا سات لاکھ پریوار وابستہ ہے لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے اب بنکر اس پیشے سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔