شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قاسم انصاری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کا ایک انوکھا سنگم اس یونیورسٹی میں دیکھا جا سکتا ہے۔'
ریاست اترپردیش کے ضلع بنارس کی قدیم 'بنارس ہندو یونیورسٹی' کو تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔
مذہبی نوعیت سے بھی یہ یونیورسٹی منفرد ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں شعبہ اردو کی لائبریری میں ہندو مذہب کی مقبول کتاب 'رگ وید' اور 'رام چرتر مانس' اردو زبان میں موجود ہے۔
شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قاسم انصاری نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو میں کہا کہ یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالویہ سیکولر مزاج کے حامل تھے یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے قیام کے وقت ہی انھوں نے اردو، عربی اور فارسی کے شعبے کا قیام عمل میں لایا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کتابیں اسی زمانے سے لائبریری میں موجود ہیں جس سے نہ صرف اساتذہ فائدہ حاصل کر رہے ہیں بلکہ طلباء کو بھی دیگر مذاہب کو سمجھنے میں کافی آسانی ہورہی ہے۔
بھارت میں اردو زبان کو ہمیشہ ایک مذہب اور طبقے سے جوڑا گیا حالانکہ تلسی داس کی معروف کتاب رام چرترمانس اور ریگ وید جیسی ہندو مذہب کی مقبول کتابیں اردو میں موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اردو زبان کوئی مذہبی زبان نہیں؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر قاسم انصاری نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اردو کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا انہوں نے کہا کہ خاص طور پر سیاسی رہنماؤں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے لیے اردو ہندی کے مابین تفریق پیدا کیا اور اردو کو ایک خاص مذہب سے جوڑ دیا۔ اور یہ اردو زبان کے لیے سب سے بڑا نقصان ہے۔
انھوں نے کہا کہ انگریزوں کی سازش کا یہ نتیجہ ہے، جس کا شکار آج کے لوگ ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے پہلے مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کی اور پھر زبان کی بنیاد پر بھارتی عوام کے درمیان تفریق پیدا کیا۔
مزید پڑھیں:'اگلے دس سالوں میں ڈی آر ڈی او 75 فیصد خود مختار ہوگا'
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت کی یہ ایسی واحد یونیورسٹی ہے جہاں شعبہ ہندی میں فراق گورکھپوری، میر، سودا، اقبال، غالب، فیض احمد فیض، جو اردو کے عظیم شاعر شمار کیے جاتے ہیں ان کو بھی ہندی شعبے میں پڑھایا جاتا ہے یہ اردو ہندی کی ہم آہنگی نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔