کورونا وائرس کی وجہ سے بنارس شہر کے کوئلہ بازار کے مولوی جی کے باڑے میں واقع حضرت مولانا سید شاہ محمد وارث رسول نما کا عرس منعقد نہیں کیا جائے گا۔ اس کے متعلق مزار انتظامیہ نے از خود فیصلہ کیا ہے کہ اس بار عرس کا اہتمام نہیں کیا جائے گا بلکہ گھروں سے ہی ایصال ثواب کریں گے۔
حضرت قطب زماں ممتاز عالم دین شاہ سید محمد وارث رسول نما کے مزار سے متصل خانقاہ بھی ہے جس کا مکمل انتظامیہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے ما تحت ہے، جس کے حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ قادری سجادہ نشین ہیں۔
آپ کا آبائی وطن ریاست اترپریش کے ضلع غازی پور کے قصبہ نونہرہ میں ہے، آپ کی پیدائش 1087ھ میں ہوئی۔
بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں آپ کے والد سید عنایت اللہ بنارس کے قاضی تھے۔ انہیں کے ساتھ آپ بھی بنارسی میں میں ہی رہتے تھے۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
رسول نما کا خطاب
مؤرخین لکھتے ہیں کہ اّپ ایام طفولیت میں ہی عشق رسالت سے سرشار تھے اور گوشہ نشین ہو کر عشقیہ مضامین کے اشعار پڑھتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ 'ہمارا محبوب تو بس رسول خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے یا رسول اللہ میں آپ کا عاشق ہوں اور عاشق کو اپنے معشوق سے ملنے پر فخر ہوتا ہے افسوس کہ میرے نصیب سوتے ہیں آپ میرے حال پر رحم نہیں فرماتے 'یہی معمول دو برس تک رہا جس کے بعد پیغمبر اعظم رحمتہ العالمین نے اپنے جمال جہاں آرا کے دیدار سے سرشار کیا اس کے بعد سے آپ روزانہ اللہ کے رسول کی زیارت کیا کرتے تھے اس مناسبت سے اپ کو رسول نما کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔
سید وارث رسول نما نہ صرف خود اللہ کے رسول کی زیارت سے شرف یاب ہوتے تھے بلکہ مریدوں کے اصرار پر بھی ان کو اوراد و وظائف پڑھنے کو کہتے تھے اور اللہ کے رسول کی زیارت ہوتی تھی۔
تفسیر قرآن سمیت مختلف کتب کی تصنیف
آپ نے دو برس کی قلیل مدت میں علم فقہ، اصول فقہ، تفسیر، حدیث و دیگر علوم و فنون پر مہارت حاصل کر لی۔ آپ نے درس نظامی میں پڑھائی جانے والی مختلف کتابیں تصنیف کیں مثلاً شرح تہذیب، شرح وقایہ پر حاشیہ لکھا تفسیر قرآن بھی تصنیف کی۔ اس کے علاوہ بھی مختلف کتابوں کے آپ مصنف تھے جو اردو عربی زبان میں موجود ہے اور اہل علم فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔
اپ کے داہنی ہتھیلی پر سبز رنگ میں باریک پیغمبر اعظم کا اسم گرامی لکھا تھا جسے بآسانی پڑھا جا سکتا تھا مورخین کے مطابق ہمیشہ آپ کی جسم سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔
اپ سے مختلف کرامتیں بھی ظہور پذیر ہوئیں جو متعدد کتابوں میں درج ہے۔
11 ربیع الثانی 1166ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ کہا جا تا ہے کہ وصال کے وقت بنارس کے ایک بزرگ زمین کو تیزی سے پکڑے ہوۓ تھے کچھ وقت بعد جب ان کو افاقہ ہوا تو لوگوں نے دریافت کیا جس جواب میں کہا کہ زمانے کا قطب اٹھ گیا جب ان کا قائم مقام منتخب ہوا تو زمین کو سکون ہوا۔