گزشتہ برس 4 اگست کو وادی کشمیر میں کانگریس، نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور پیپلز کانفرنس نے مل کر ایک متحدہ محاذ پیش کیا۔ اس محاذ کو گوپکار ڈکلیریشن کا نام دیا گیا۔ اس محاذ میں تمام بی جے پی مخالف جماعتوں نے جموں و کشمیر کو دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو محفوظ رکھنے اور حد بندی کے خلاف لڑنے کا عہد کیا۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر ہوئی اس میٹنگ کے دوران تمام سیاسی لیڈران نے وادی کی صورتحال اور عوام میں بڑھتے خدشات کو جاری رکھتے ہوئے یہ فیصلہ لیا تھا۔
گوپکار ڈکلیریشن کا کیا ہوا؟ اگرچہ میٹنگ کی صدارت فاروق عبداللہ نے کی تھی تاہم محبوبہ مفتی، مظفر حسین بیگ، عبدالرحمن ویری، سجاد غنی لون، عمران رضا انصاری، عبدالغنی وکیل، تاج محی الدین، محمد یوسف تاریگامی، عمر عبداللہ، حسنین مسعودی، محمد اکبر لون، شاہ فیصل، مظفر شاہ جیسے لیڈروں نے بھی گوپکار ڈکلیریشن پر دستخط کیے تھے۔ اس کے دوران یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کی شناخت اور سالمیت کے لئے وادی کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر لڑیں گے۔ تاہم اس فیصلے کے کچھ گھنٹوں بعد تمام لیڈران کو حراست میں لیا گیا۔
گوپکار ڈکلیریشن کا کیا ہوا؟ گوپکار ڈکلیریشن کو آج ایک برس مکمل ہوا تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے کچھ ایسی کاروائی دیکھنے کو نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی شناخت کو بچانے کے لئے کار بند ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر علیٰ محمد ساگر کا کہنا ہے کہ "ہم گوپکار ڈکلیریشن پر ابھی بھی کاربند ہیں لیکن گزشتہ برس چار اگست کے بعد ہمیں قید رکھا گیا، وادی میں کوئی بھی سیاسی سرگرمی نہیں ہونے دی جار ہی۔ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ ایسے میں ہم آواز بلند کرتے بھی تو کیسے؟"
گوپکار ڈکلیریشن کا کیا ہوا؟ وہیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر وحید پرہ کا کہنا ہے کہ "اس وقت وادی میں نا کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی جموں کشمیر ریاست۔ جمہوریت کہیں نظر نہیں آ رہی ہے"عوامی نیشنل کانفرنس کی نائب صدر بیگم خالدہ شاہ کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیر کو لے کر پالیسی زمینی سطح پر غلط ثابت ہو رہی ہے۔شاہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق "ایک برس گزر چکا ہے جب سے مرکزی سرکار نے غیر جمہوری طور پر جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ گوپکار ڈکلیریشن میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ہم ان پر کاربند ہیں۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "زمینی سطح پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ جموں و کشمیر کے تینوں خطوں سے، چاہے وہ جموں ہو کشمیر ہو یا پھر لداخ ہر طرف سے ایک ہی آواز آرہی ہیں کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو لیا گیا فیصلہ غلط ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔"قابل ذکر ہیں کی گزشتہ مہینے فاروق عبداللہ نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ گوپکار ڈکلیریشن سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت میں ہمارے ساتھ ایک مذاق کیا ہے۔ دفعہ 370 کو غیر آئینی طور پر ختم کیا گیا۔ ان کا طریقہ غیر آئینی اور غیر جمہوری تھا لیکن ہم قانونی طور پر لڑ کر جموں و کشمیر کو دوبارہ خصوصی حیثیت دلائینگے۔"