ETV Bharat / city

شویپاں: سراج العلوم کے اساتذہ سے متعلق پولیس بیان مسترد - پبلک سیفٹی ایکٹ

شوپیاں کے امام صاحب علاقے میں قائم جامعہ سراج العلوم کے اساتذہ پر پی ایس اے عائد کرنے کے پولیس بیانات کو جامعہ کے چئیرمین نے مسترد کر دیا۔

شویپاں: سراج العلوم کے اساتذہ سے متعلق پولیس بیان مسترد
شویپاں: سراج العلوم کے اساتذہ سے متعلق پولیس بیان مسترد
author img

By

Published : Oct 14, 2020, 6:16 PM IST

ضلع شوپیاں میں سنہ 1992ء میں قائم جامع سراج العلوم سے اب تک ہزاروں طلباء علم کے نور سے منور ہو چکے ہیں، جہاں بعض طلبہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، اور اسکالرز بنے تو وہیں کچھ نوجوانوں نے محکمہ پولیس اور فوج میں بھی شمولیت اختیار کی۔

یہ تعلیمی ادارہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’شوپیاں کے امام صاحب علاقے میں واقع جامعہ سراج العلوم نامی تعلیمی ادارے کی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔‘‘

شویپاں: سراج العلوم کے اساتذہ سے متعلق پولیس بیان مسترد

انہوں نے کہا تھا کہ ’’کالعدم سماجی و مذہبی تنظیم جماعت اسلامی سے منسلک اس تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر پانچ کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے خلاف مقدمے درج کئے جا چکے ہیں۔‘‘

تاہم جامعہ کے چیرمین محمد یوسف منتو نے پولیس کے سبھی بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’پولیس نے جن اساتذہ کا تذکرہ کرکے ان پر پی ایس اے عائد کیا ہے، اس نام کا کوئی بھی ٹیچر ہمارے اسکول میں مدرس نہیں۔‘‘

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے محمد یوسف نے کہا کہ ’’جامعہ سراج العلوم مدرسہ نہیں، بلکہ یہاں طلباء کو مروجہ تعلیم دی جاتی ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: تین اساتذہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد

انہوں نے مزید کہا کہ ’’کشمیر میں سینکڑوں طلبہ عسکری راستہ اختیار کر چکے ہیں اور ابھی بھی عسکری صفوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ تاہم پولیس کی جانب سے جن عسکریت پسندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ کئی سال قبل ادارے سے نکل چکے ہیں۔‘‘

انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کئی سال قبل ادارے سے فارغ ہوئے کچھ طلباء عسکری راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس میں ادارہ کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جامعہ سراج العلوم میں طلباء کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی درس دیا جاتا ہے نہ کہ عسکری ٹریننگ۔

جامعہ کے چیئرمین نے ایجنسیز کو ادارے کی تحقیقات کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارا تعلیمی ادارہ ایک کھلی کتاب کے مانند ہے۔‘‘

ضلع شوپیاں میں سنہ 1992ء میں قائم جامع سراج العلوم سے اب تک ہزاروں طلباء علم کے نور سے منور ہو چکے ہیں، جہاں بعض طلبہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، اور اسکالرز بنے تو وہیں کچھ نوجوانوں نے محکمہ پولیس اور فوج میں بھی شمولیت اختیار کی۔

یہ تعلیمی ادارہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’شوپیاں کے امام صاحب علاقے میں واقع جامعہ سراج العلوم نامی تعلیمی ادارے کی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔‘‘

شویپاں: سراج العلوم کے اساتذہ سے متعلق پولیس بیان مسترد

انہوں نے کہا تھا کہ ’’کالعدم سماجی و مذہبی تنظیم جماعت اسلامی سے منسلک اس تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر پانچ کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے خلاف مقدمے درج کئے جا چکے ہیں۔‘‘

تاہم جامعہ کے چیرمین محمد یوسف منتو نے پولیس کے سبھی بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’پولیس نے جن اساتذہ کا تذکرہ کرکے ان پر پی ایس اے عائد کیا ہے، اس نام کا کوئی بھی ٹیچر ہمارے اسکول میں مدرس نہیں۔‘‘

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے محمد یوسف نے کہا کہ ’’جامعہ سراج العلوم مدرسہ نہیں، بلکہ یہاں طلباء کو مروجہ تعلیم دی جاتی ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: تین اساتذہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد

انہوں نے مزید کہا کہ ’’کشمیر میں سینکڑوں طلبہ عسکری راستہ اختیار کر چکے ہیں اور ابھی بھی عسکری صفوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ تاہم پولیس کی جانب سے جن عسکریت پسندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ کئی سال قبل ادارے سے نکل چکے ہیں۔‘‘

انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر کئی سال قبل ادارے سے فارغ ہوئے کچھ طلباء عسکری راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس میں ادارہ کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جامعہ سراج العلوم میں طلباء کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی درس دیا جاتا ہے نہ کہ عسکری ٹریننگ۔

جامعہ کے چیئرمین نے ایجنسیز کو ادارے کی تحقیقات کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارا تعلیمی ادارہ ایک کھلی کتاب کے مانند ہے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.