ریاض نائکو کشمیر میں طویل عرصے سے سرگرم عسکریت پسندوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے سر پر حکام نے بارہ لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا۔
خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز نے منگل کی شام نا ئکو کے آبائی گاؤں بیگہ پورہ کا محاصرہ کیا تھا جو اونتی پورہ قصبے کی مضافات میں واقع ہے۔
اطلاعات یہ تھیں کہ علاقے میں کوئی انتہائی مطلوب عسکریت پسند چھپا ہوا ہے چنانچہ فوج ، پولیس اور سی آر پی ایف کے اعلیٰ افسران رات بھر تلاشی کارروائی کی نگرانی کرتے رہے۔
بدھ کی صبح سے علاقے سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔
حالانکہ ریاض نائکو کی موجودگی کی خبریں گشت کررہی تھیں لیکن پولیس ترجمان نے میڈیا اداروں کو تنبیہ کی کہ وہ تصدیق ہونے کے بغیر کسی کی شناخت کے بارے میں تبصرہ نہ کریں۔
قریباً دن کے اڈھائی بجے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ محاصرے کے دوران دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے ایک ریاض نائکو بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکام کو جانکاری ملی تھی کہ ریاض نائکو اپنے گھر والوں سےملنے آیا تھا اور اسکی اطلاع سکیورٹی فورسز کو مل گئی۔ سکیورٹی فورسز بشمول راشٹریہ رائفلز، سی آر پی ایف اور ایس او جی نے پورے گاؤں کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کردیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ بیگ پورہ کے علاوہ نزدیکی گلزار پورہ گاؤں کو بھی محاصرہ میں لے لیا اور یہاں بھی تلاش جاری تھی۔
تلاشی کارروائی کے دوران ہر مکان کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔
ریاض نائکو کالعدم تنظیم حزب المجاہدین کے چیف کمانڈر تھے۔
اگست 2017 میں تنظیم کے کمانڈر محمد یاسین ایتو کی ہلاکت بعد نائکو کو حزب کی کمان سونپی گئی تھی۔ انکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جولائی 2016 میں اننت ناگ کے کوکرناگ علاقے حزب المجاہدین تنظیم کے پوسٹر بوائے اور کمانڈر برہان وانی کے قریبی ساتھی بھی تھے۔
نائکو کے سر پر 12 لاکھ روپے کا انعام تھا کیونکہ حکام نے انہیں اے پلس پلس زمرے میں رکھا تھا۔
ماضی میں اس کے کئی آڈیو پیغامات سامنے آئے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے۔ ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو وطن واپس آنے کی دعوت دی تھی۔
عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے سے پہلے نائکو مقامی نجی اسکول میں استاد کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔
ریاض نائکو کا نام اسوقت سرخیوں میں آیا تھا جب انہوں نے 2017 میں پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ دھمکی پولیس کی ان کاروائیوں کے ردعمل میں تھی جس کے تحت سرگرم عسکریت پسندوں کے رزتہ داروں کو گرفتار کیا جاتا تھا۔
اس دھمکی کے بعد کئی پولیس اہلکاروں کو ہلاک بھی کیا گیا چنانچہ حکام نے جنوبی کشمیر میں رہنے والے تمام پولیس اہلکاروں کیلئے یہ ایڈوائزی جاری کی کہ وہ تین ماہ تک اپنے گھروں کا رخ نہ کریں اور شدید ضرورت کے وقت مقامی پولیس تھانے کو مطلع کریں۔
باور کیا جاتا ہے کہ عسکریت پسندون کے رشتہ داروں کی گرفتاری سے پیدا شدہ تنازعے کے بعد حکام نے اسوقت کے پولیس سربراہ ڈاکٹر ایس پی وید کو تبدیل کیا۔
سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ نائکو نے حزب المجاہدین کی دھڑہ بندی ہونے کے بعد حزب کو متحد رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ذاکر موسیٰ حزب مخالف صفوں میں شامل ہوا تھا اور بعد میں تنظیم سے علیحدہ ہوکر اپنا الگ گروپ تشکیل دیا۔
موسیٰ نے 2017 میں حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کرلی اور بعد میں انصار غزوہ الہند کے نام سے اپنا ایک گروپ تشکیل دیا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ القاعدہ کا بھارت میں ترجمان گروپ ہے۔ موسیٰ 23 مئی 2019 کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں تحصیل ترال کے ڈاڈسرہ گاؤں میں ہلاک ہوگیا تھا۔ حکام نے بعد میں انصار کے متعدد عسکریت پسندوں کو یکے بعد دیگرے ہلاک کردیا۔
اس وقت انصار کے ساتھ جنوبی کشمیر میں کوئی اہم عسکریت پسند نہیں جڑا ہوا ہے اور تنظیم کو اسلحہ اور دیگر وسائل کی قلت کے ساتھ ساتھ قیادت بھی میسر نہیں ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ اس گروپ کا تقریباً صفایا ہوچکا ہے۔