مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ نے مشترکہ طور پر پہلی بار جموں میں ایک ریئل اسٹیٹ سمٹ Real Estate Summit in Jammu کا انعقاد کیا۔ اس سمٹ کا مقصد ملک بھر کی عوام کو جموں و کشمیر میں زمین، یا دوسرا گھر خریدنے کی طرف راغب کرنا تھا۔
جہاں انتظامیہ نے اس سمٹ کو جموں و کشمیر میں تاریخی تبدیلی قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے لیے قوانین بشمول غیر زرعی زمین کی خریداری میں تبدیلی کی ہے۔ وہیں مقامی سیاستدانوں نے انتظامیہ پر جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش بتایا۔
جموں کشمیر کےسابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ Omar Abdullah Former Chief minister of J&K کا کہنا تھا کہ 'اس ریئل اسٹیٹ سمٹ Real Estate Summit سے ایک بار پھر حکومت کے حقیقی ارادے سامنے آ گئے ہیں۔ لداخ کی عوام کی زمین، نوکریاں، ڈومیسائل قوانین اور شناخت کو محفوظ بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے، جموں و کشمیر کو فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'جموں کی عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے، سرمایہ کار کشمیر سے پہلے جموں میں زمین خریدیں گے'
وہیں جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید الطاف بخاری Altaf Bukhari J&K Apni Party کا کہنا تھا کہ 'جموں و کشمیر کے کردار اور ڈیموگرافی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہم ہمیشہ مزاحمت کریں گے'۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'ہماری پارٹی جموں و کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے والی کسی بھی کوشش کا ہمیشہ خیر مقدم کرے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم کسی بھی ایسے منصوبے کی مزاحمت کرنے کا عہد کرتے ہیں، جو عوام کی زمینوں اور ملازمتوں پر خصوصی حقوق کو ختم کرے گا'۔
- مزید پڑھیں: Ghulam Nabi Azad on Delimitation: ’ہم جموں و کشمیر کو ایک اسٹیٹ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'اس قانونی ضمانت کا اخراج جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے بالکل ناقابل قبول ہے۔ ایسے وقت میں جب جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح قومی اوسط 7.8 فیصد کے مقابلے میں 21 فیصد سے زیادہ ہے، مرکز کو غیر زرعی زمین کی فروخت پر توجہ دینے کے بجائے روزگار کے مزید مواقع پیدا کرکے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنا چاہیے'۔