تاہم جموں وکشمیر حکومت نے اتوار کے روز کہا کہ محکمہ مال نے شراب کی تازہ لائسنس جاری کرنے کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے اور کوئی بھی فیصلہ متعلقین کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں لیا جائے گا۔
اس سرکاری دستاویز کو دیکھتے ہی لوگوں نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر شدید نکتہ چینی کی۔ وہیں جموں کے مفتی محمد آصف نے سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مفتی آصف نے کہا کہ کل سے مزید شراب کے دوکانوں کے کھلنے کی خبر آئی ہے تب سے ہر ایک انسان کو دکھ پہنچا ہیں کہ سرکار سماج میں برائیوں کو ختم کرنے کے بجائے اس کو بڑھاوا دے رہی ہیں جبکہ شراب کو سب بیماریوں کا جڑ کہا جارہا ہیں اور اب اسی برائی کو سرکار عام کررہی ہیں جبکہ انہیں اس کو روکنا تھا ۔
مفتی آصف کا مزید کہنا ہے کہ گھریلوں تشدد کے بڑھتے واقعات بھی شراب نوشی سے پیش آتے ہیں اور ملک کی متعدد ریاستوں میں سرکار نے شراب پر پابندی عائد کی ہیں تو جموں کشمیر سرکار کو بھی شراب نوشی کو بڑھاوا دینے کے بجائے اسے ختم کرنا چاہیے۔
سردار گجن سنگھ نے شراب کہ دوکانیں کھولنے پر سرکار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سرکار فیل ہوچکی ہیں اب اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے شراب کی دوکانیں کھولنے کو منظوری دے رہے ہیں جبکہ اس طرح کے فیصلے کرنے کا حق لوگوں کے منتخبہ نمائندوں کو حاصل ہیں بیرون ریاست کے اعلا افسران کو جموں کشمیر میں تعینات کرکے اس طرح کے فیصلے لینے کا حق نہیں۔
بتادیں جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 224 شراب کی دکانیں ہیں جن میں سے جموں میں 220 جبکہ کشمیر میں صرف 4 دکانیں ہیں، جن سے حکومت کو ماہانہ ایک سو کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔