جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق کسی بھی فرد کے خلاف جرم ثابت ہونے تک ان کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے-
ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے اس فرمان سے حالیہ ملازمین کی برطرفی کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکٹو آرڈر قانون کی عدالت کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ جرم یا بے گناہی عدالت میں ثابت ہونی چاہیے اور غیر مبہم پولیس رپورٹس کی بنیاد نہیں۔
وہیں، سجاد لون کی قیادت والی پیپلز کانفرنس کے ترجمان عدنان اشرف نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ پولیس کا فرمان سی آئی ڈی کی سپیشل برانچ کو جج، جوری اور ایکزیکوشنز کے اختیارات دے رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے فرمانوں سے لوگوں کا یقین حکموت کے اداروں سے اٹھ جائے گا اور نفسیاتی دوری مزید بڑھ جائے گی۔ عدنان اشرف کا مزید کہنا ہے کہ ایسے احکامات سے کشمیری نوجوانوں کے مستقبل مخدوش نظر آرہے ہیں۔
وہیں، اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے کہا کہ یہ حکمنامہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے وعدوں سے بالکل متضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکمنامے سے نوجوان ملک سے مزید دور ہو جائیں گے اور امن اور صلاح کے اقدام بے سود ثابت ہوں گے۔
الطاف بخاری نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گونر منوج سنہا سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس حکمنامے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں:
ہم آپ کو بتا دیں کہ 31 جولائی کو جموں و کشمیر سی آئی ڈی (اسپیشل برانچ) نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں تمام فیلڈ یونٹس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاسپورٹ، سرکاری نوکری اور کسی بھی سرکاری خدمات یا اسکیموں کا فائدہ لینے کا خواہشمند شخص پتھر بازی یا اُن معاملات میں ملوث نہ ہو جو ملک کی سلامتی کے خلاف ہیں۔