محمد یوسف تاریگامی نے اپنی عرضی میں دعوی کیا ہے کہ "5 اگست 2019 کو مرکز کے جانب سے جموں و کشمیر (تنظیم نو) ایکٹ 2019 کے آئینی جواز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ زیر التوا ہے ، لیکن مرکزی حکموت نے کچھ ناقابل قبول فیصلے لیے ہیں۔"
اُن کا کہنا ہے کہ مرکز نے اسمبلی انتخابات منعقد ہونے سے قبل تمام حلقوں کے حدود کو نشان دہی کرنے کے لیے ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا ہے۔
عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ "جموں و کشمیر ڈیولپمنٹ ایکٹ میں ترمیم کیا گیا جس وجہ سے ان لوگوں کو اجازت دی گئی ہے جو جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی نہیں ہیں وہ جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اگر یہ زرعی زمین نہیں ہے۔
محمد یوسف تاریگامی نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ جموں کشمیر ریاستی خواتین کمیشن، جموں و کشمیر ریاستی احتساب کمیشن، جموں و کشمیر ریاستی صارف تحفظ کمیشن اور جموں و کشمیر ریاستی انسانی حقوق کمیشن جیسے اداروں کو جموں و کشمیر (تنظیم نو) ایکٹ 2019 کے بعد بند کیا گیا ہے"
درخواست گزار نے کہا کہ "مرکزی حکومت کی جانب سے مذکورہ بالا اقدامات کے پیش نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ آئینی جواز کے چیلنج کو فوری بنیادوں پر سنا جانا چاہیے ورنہ پٹیشن خود ہی ناقابل تلافی کارروائیوں کے پیش نظر بے نتیجہ ہو جائے گی۔
تاریگامی نے اپنی عرضی میں مزید کہا کہ اگر معاملات کو فوری طور پر نہیں سنا گیا تو درخواست گزار کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
مزید پڑھیں:
درخواست گزار نے ان معاملات کے پیش نظر رٹ پٹیشن کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا ہے۔تاریگامی نے عرضی میں کیا کہ عدالت ان کی رٹ پٹیشن (سول) زیر 1210 تاریخ 2019 کی جلد سماعت کرے۔