جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے آج یوٹی حکومت کے 40 کروڑ روپے کی لاگت سے قبائلی علاقوں میں 200 اسکولوں کو اسمارٹ سکولوں میں تبدیل کرنے کے اہم پروجیکٹ کو وقف کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ اسمارٹ سکولوں کی جدید کاری دو مرحلوں میں کی جائے گی ۔ پہلے مرحلے میں 100 سکولوں سے متعلق مارچ 2022ءتک اور دوسرے 100 اسکولوں سے متعلق کام دسمبر 2022ءتک مکمل کیا جائے گا۔
اِس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر نے حکومت کے ایک اور بڑے فیصلے کا اعلان کیا جس میں گڈی، سپی ، درد ، شینا برداریوں کے 21,000 بچوں کو وظائف فراہم کئے جائیں گے جو گذشتہ تین دہائیوں سے اِس سے محروم ہے۔اُنہوں نے کہا کہ گڈی ، سپی برداری کو 1991ء میں قبائلی قرار دیا گیا لیکن ان کے بچوں کو اسکالر شپ سے محروم رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تین دہائیوں تک وہ حکومتوں سے رجوع کرتے رہے لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ مسئلہ چند دِن پہلے میرے علم میں لایا گیا ہے اور ہم نے فوری طور پر یہ فیصلہ لیا کہ گڈی، سپی، درد ،شینا برادریوں کے 21,000 بچوں کو وظائف فراہم کئے جائیں گے۔
لیفٹیننٹ گورنر نے اَپنے خطاب میں قبائلی برداریوں اور متعلقہ اِنتظامی محکموں کو جموں و کشمیر میں قبائلیوں کو تعلیمی بااختیار بنانے کے نئے دور کے تاریخی آغاز کے لئے مبارک باد دی۔
اُنہوں نے کہا ، 'ہماری ترجیح قبائلی بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے ۔ قبائلی اور دُور دراز علاقوں میں جدید سہولیات سے آراستہ سمارٹ سکول بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کریں گے۔'
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جموں و کشمیر یوٹی حکومت نے اسمارٹ اسکولوں کے کام کاج کے لئے ایک ویژنری فریم ورک تیار کیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ قبائلی برادریوں کے ارکان، پی آر آئی کے نمائندے اور رضاکار آرگنائزیشنز سے وابستہ لوگوں کو اِنتظام میں شامل کیا جائے گا تاکہ یہ اسکول ہمارے معاشرے میں 'چینج میکرس' کا کردار اَدا کر سکیں۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا، 'جب لوگ جُڑتے ہیں تو زندگی بدل جاتی ہے تو سب کچھ جُڑ جاتا ہے۔ قبائلی تعلیمی منصوبہ، اسکالر شپ، اسمارٹ اسکول جموں واکشمیر میں قبائلی برادریوں کے ساتھ اِنصاف کریں گے جنہیں دہائیوں سے نظر اَنداز کیا گیا ہے۔'
لیفٹیننٹ گورنر نے قبائلی برادری میں خود اعتمادی کو بیدار کرنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر یہ اَدا کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر اِنتظامیہ قبائلی علاقوں میں اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور قبائلی برادری کی خاطر ایک مضبوط تعلیمی ماحولیاتی نظام قائم کرنے کے لئے مجموعی طور پر تقریباً 104 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ اسمارٹ سکولوں کے علاوہ ہم قبائلی محکمہ کے ہوسٹلوں کو جدید بنانے پر بھی 8.50 کروڑ روپے خرچ کر رہے ہیں اور 04 کروڑ روپے نئے ہوسٹلوں کے لئے دیے جائیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ جولائی میں جموں و کشمیر یوٹی اِنتظامیہ نے فیصلہ لیا تھا کہ راجوری میں دو اکلاویہ ماڈل اسکول، اننت ناگ، پونچھ، کولگام اور بانڈی پورہ میں ایک ایک اسکول کھولے جائیں گے اور اِ س کے لئے 21.25 کروڑ روپے اور اسکالرشپ کے لئے 30 کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے والی تعلیمی اِصلاحات سماجی و اِقتصادی صورتحال کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
اِس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر نے والدین سے بھی اپیل کی کہ وہ اَپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کو ترجیح دیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ ہمار ی اَخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اَپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کے بہترین مواقع اور ذرائع فراہم کریں۔
وہیں لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر فاروق خان نے اَپنے خیالات کا اِظہار کرتے ہوئے محکمہ تعلیم اور قبائلی برادریوں کے ممبران کو اسمارٹ اسکولوں کے آغاز پر مبارک باد دی۔
اُنہوں نے قبائلی آبادی کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے تعلیم، صحت اور مختلف شعبوں میں کی جانے والی متعدد سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
اِس موقع پر چیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے خطاب کرتے ہوئے قبائلی بچوں کے لئے اسمارٹ اسکولوں کی تبدیلی کے آغاز کو ایک بہترین قدم قرار دیا۔
اُنہوں نے اَساتذہ کی مستقل استعداد کار کے علاوہ قبائلی بچوں کا مکمل ڈیٹا بیس بنانے پر بھی زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: منوج سنہا نے سرینگر میں ملٹی لیول کار پارکنگ کا افتتاح کیا
اِس سے قبل اِنتظامی سکریٹری اسکولی تعلیم بی کے سنگھ نے جموں و کشمیر میں مجموعی تعلیمی منظر نامے کے بارے میں ایک مختصر جائزہ پیش کیا۔ اِنتظامی سکریٹری قبائلی امور ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری نے قبائلی برادریوں کے بچوں کے لئے وظائف کا اعلان کرنے پر لیفٹیننٹ گورنر کا شکریہ اَدا کیا۔
اُنہوں نے اِس موقع پر حکومت کی مختلف اسکیمز سے آگاہی کے لئے منعقد کی جانے والی ورکشاپ کے بارے میں جانکاری دی۔
اِس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر کے پرنسپل سکریٹری نتیشور کمار، صوبائی کمشنر جموں ڈاکٹر راگھو لنگر، ضلع ترقیاتی کمشنر، سربراہاں، چیف ایجوکیشن اَفسران کے علاوہ طلبہ، والدین، اَساتذہ اور قبائلی برادریوں کے اراکین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔