اس جدید اسکیم سے کئی باغبانوں کو کافی منافع ہوا ہے، وہیں چند ایسے کاشتکار بھی ہیں جن کیلئے یہ اسکیم نقصان دہ ثابت ہوئی۔
اس اسکیم کے تحت محکمہ باغبانی کاشتکاروں کو پیسوں کے عوض ہائی ڈینسٹی سیب کے پودے فراہم کرتا ہے جو صرف دو سالوں میں ہی پھل دینے لگتے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے ایک باغبان نذیر احمد ڈار کیلئے ہائی ڈینسٹی اسکیم درد سر بن گئی۔
نذیر احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بینک سے قرضہ لے کر اس اسکیم کے تحت محکمے کی جانب سے فراہم کئے گئے جدید پودے اپنے دس کنال اراضی پر محیط باغ میں اُگائے جو ناکارہ ثابت ہوئے جس سے ان کا بہت نقصان ہوا۔
ان جدید پودوں کو کاشتکاروں تک پہنچانے کیلئے سابق مخلوط حکومت نے اس کا ٹھیکہ ضلع شوپیاں کی ایک نجی کمپنی کو سونپا تھا۔
یہ کمپنی اٹلی اور دوسرے بیرونی مملک سے جدید پودے درآمد کرکے کاشتکاروں کو فروخت کرتی تھی اور اسکیم کے تحت انہیں کاشتکاروں کو صرف 20 فیصد پالینائیزرس فراہم کرنے تھے۔ تاہم نذیر احمد کا دعویٰ ہے کہ انہیں کُل 1150 میں سے 800 پالینیزرس اور بقیہ جدید پودے فراہم کئے گئے۔
نذیر احمد کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے انکا باغ تباہ ہوگیا اور انہوں نے محکمہ سے اس نقصان کی بھرپائی کا مطالبہ کیا ہے۔
محکمہ باغبانی نے تسلیم کیا کہ بعض کاشتکاروں کی جانب سے ہائی ڈینسٹی اسکیم کے متعلق شکایتیں موصول ہونے کے بعد انہوں نے اس اسکیم کا جائزہ لیا۔
منظور احمد، محکمہ باغبانی کے ایک افسر، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’محکمہ کو نجی کمپنیوں کے توسل کے بجائے خود سرکاری نرسری میں یہ جدید پودے اُگا کر کاشت کاروں کو فراہم کرنے چاہئیں۔‘‘
محکمہ باغبانی کے بعض افسران نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’نجی کمپنیوں کے ذریعے پودے فراہم کرنے سے باغبانوں اور محکمہ دونوں کو مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔‘‘