سری نگر: مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ محکمہ سماجی بہبود یا سوشل ویلفیئر محکمے کی طرف سے مستحق بزرگوں کو دی جانے والی سرکاری امداد سے متعلق اسکیم اب بہتر طریقے سے چل رہی ہے اور بزرگ شہریوں اور بیواؤں کو ماہانہ ایک ہزار روپے کی رقم ان کے بینک کھاتوں میں ڈالی جاتی ہے۔ لیکن بہت سے بزرگ شہری شکایت کر رہے ہیں کہ ایک طویل عرصہ گزر نے کے باوجود انہیں ماہانہ امداد نہیں مل رہی ہے۔
ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ ان کے لئے اس معمولی رقم کا حصول انتہائی مشکل بنادیا گیا۔ ایک ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے اسکیم کے دائرے میں آنے والے ہر شخص کو رجسٹر کرنے اور اپنے بینک کھاتے کو آدھار کی تفصیلات کے ساتھ منسلک کرنے میں مہینوں لگے ہیں۔
ایک بزرگ شہری غلام نبی کے لیے ماہانہ امداد ابھی تک ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل نہیں ہوئی ہے کیونکہ پچھلے دو سالوں میں ان کی درخواست دو بار مسترد کر دی گئی تھی۔
غلام نبی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہا کہ انہوں نے تین ماہ پہلے دوبارہ درخواست دی تھی اور اب ان کے اکاؤنٹ کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن رقم ابھی آنا باقی ہے۔
ان کے مطابق وظیفے کیلئے درکار دستاویزات بنانا ان کے لئے ایک پہاڑ کو سر کرنے کے مترادف تھا۔ پچھلے دو سالوں میں، میں نے اپنے دستاویزات کی تصدیق کے لیے تحصیل سماجی بہبود کے دفتر، جموں و کشمیر بینک کی برانچ اور آدھار سینٹر کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس مشق کو مکمل کرنے میں مجھے کم و بیش تین سال کا عرصہ لگا۔
جموں و کشمیر کی حکومت نے دو سال پہلے ایک مہم شروع کی تھی جس کے تحت ان افراد کو سرکاری امدادی اسکیموں سے باہر کرنا تھا جن کی شناخت کے بارے میں شک و شبہہ ہو۔ اس مہم کو ویڈنگ آوٹ کا نام دیا گیا تھا۔ مہم کے تحت جائز مستحقین کے تصدیق شدہ بینک کھاتوں کو آدھار کارڈ سے لنک کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ملنے والی امدادی رقم صاف و شفاف طریقے سے منتقل ہوجائے۔
اس مشق نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں بوڑھے شہریوں، بیواؤں، مالی طور پر پریشان خواتین، معذور افراد، ٹرانس جینڈرز (ہیجڈے وغیرہ) کو کافی پریشان کردیا کیونکہ انہیں سماجی بہبود کے دفاتر سے لے کر بینکوں اور آدھار مراکز تک اپنی تصدیق کے لیے سخت محنت کرنی پڑی۔
سماجی بہبود کا محکمہ ان شہریوں کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے جن کی عمر 60 سال یا اس سے زیادہ ہے (مردوں کی صورت میں) اور خواتین جن کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہے جن کی آمدنی کا بہت کم ذریعہ ہے۔
غلام حسن نامی ایک مستحق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ امدادی رقم اب براہ راست ہمارے کھاتوں میں آرہی ہے لیکن قسطیں مسلسل اور ماہوار طریقے پر نہیں مل رہی ہیں، اس بار میرے کھاتے میں چار ماہ کے بعد کچھ رقم جمع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تصدیق کا عمل بہت مشکل تھا اور اکاؤنٹس کو صحیح کرنے اور انہیں اپ ڈیٹ کرنے میں مہینوں لگے۔ انہوں نے بتایا کہ سوشل ویلفیئر کے دفاتر سے بینکوں اور آدھار مراکز تک جن مراحل سے گزرنا پڑا وہ اب ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔
غلام حسن نے مزید کہا کہ حکومت نے امداد کی منتقلی کے عمل کو ہموار کیا لیکن اس دوران ان مہینوں کی امداد فراہم نہیں کی گئی جو تصدیق کے عمل میں صرف ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو وہ رقم جاری کرنی چاہیے جو تصدیق کی مدت کے دوران مستحقین کو جاری نہیں کی گئی کیونکہ اس میں مستحقین کا کوئی قصور نہیں ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ اکثر مستحقین کو آدھار کارڈ بنانے والوں یا بینک کھاتے کھولنے والے بینک ملازمین کی نااہلی کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔ محکمہ سماجی بہبود کی ایک ملازم نے بتایا کہ مستحقین غیر تعلیم یافتہ اور سماج کے نچلے طبقے سے وابستہ ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بینک اکاؤنٹ یا آدھار کارڈ بنواتے وقت ملازمین کو تمام ضروری کاغذات فراہم کئے لیکن انہون نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط نام درج کئے۔ اس کے علاوہ کئی جہگوں پر نام کی اسپیلنگ بھی غلط درج ہیں۔ آن لائن نظام میں یہ غلطیاں سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے مستحقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اپنے شناختی دستاویزت بنانے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا جس کے بعد ہی یہ نظام درست ہوسکتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے ایک تحصیل سوشل ویلفیئر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس مشق میں مہینوں کا عرصہ لگا۔ اس دوران ایک ہی اسکیم سے دو دو جگہوں سے فائدہ اٹھانے والوں، دوہرے کھاتوں، نااہل افراد اور فرضی استفادہ کنندگان جیسے افراد کو نکال باہر کر دیا گیا۔
ان کے مطابق محکمے کو تصدیق میں کافی وقت لگا، لیکن اس عمل نے اسکیم کو ہموار کیا اور اسے شفاف بنایا۔ اب صرف مستحق شہری ہی اندراج کر رہے ہیں اور امداد حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف پانچ فیصد شہریوں کو ہی آدھار کی تصدیق کے بارے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر کشمیر محمد اکبر وانی نے کہا کہ وادی کشمیر میں استفادہ کنندگان کی کل تعداد 444374 ہے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مستحقین میں سے 331588 بزرگ، 40628 بیوہ یا مصیبت زدہ خواتین ہیں جبکہ 72072 افراد جسمانی طور پر مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ 131 خواجہ سرا ہیں جنہیں حکومتی امداد دی جاتی ہے۔
وانی نے کہا کہ تصدیق کے عمل کے دوران 105,700 نااہل افراد کو ہٹا دیا گیا کیونکہ یہ غیر مستحق تھے یا کچھ کے مختلف اضلاع میں دوہرے اکاؤنٹس تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کو جموں و کشمیر کے خزانے سے فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں اور اس پر ہر مالی سال کے دوران کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ وانی کے مطابق رواں مالی سال کے دوران محکمہ سماجی بہبود نے جموں و کشمیر میں مستحقین کیلئے 1200 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔
برسراقتدار نیشنل کانفرنس حکومت نے اپنے منشور میں بڑھاپے اور بیوہ پنشن کو 1000 روپے سے بڑھا کر 3000 روپے ماہانہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مستحقین کہتے ہیں کہ حکومت اپنے وعدے کو جلد یا دیر سے پورا کرے لیکن فی الحال فوری مسئلہ یہ ہے کہ رقومات جاری کرنے کا عمل بہتر کیا جائے۔ جن لوگوں کی قسطیں چھوٹ گئی ہیں انہیں بھی ترجیحی بنیادوں پر واگزار کیا جائے۔