ETV Bharat / city

'Historical importance Of 'Thong e Masjid: سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر

author img

By

Published : Dec 13, 2021, 5:06 PM IST

Updated : Dec 13, 2021, 5:31 PM IST

عقیل میر نے شہر خاص کے خانیار علاقے میں دو مساجد کی تعمیر کروائی، جن میں ایک حضرت شیخ سید عبدالقادرؒ کے آستانۂ عالیہ سے متصل واقع ہے جو کہ حال ہی میں آگ کے واقعہ میں خاکستر ہوگئی دوسری مسجد جو کہ خانیار کے شالہ باغ محلے میں واقع ہے جسے یہاں عرف عام میں تھونگہ مسجد 'Historical importance Of 'Thong e Masjid کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر
سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر

مغل بادشاہوں نے جہاں اپنے دور حکومت میں بڑے بڑے باغات، قلعے، دروازے، مقبرے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ وہیں ان کے دور اقتدار میں وادیٔ کشمیر ایسے بھی مہتمم اور منتظم گزرے ہیں،جنہوں نے بھی اپنے نام سے نہ صرف کئی یادگاریں بلکہ کئی مساجد بھی تعمیر کیں جوکہ آج بھی انہیں کے نام سے مشہور ہیں۔ انہیں میں شامل ہیں مسجد عقیل میر اور تھونگہ مسجد۔


دراصل عقیل میر نے شہر خاص کے خانیار علاقے میں دو مساجد کی تعمیر کروائی۔ جن میں ایک حضرت شیخ سید عبدالقادرؒ کے آستان عالیہ کے متصل واقع ہے جو کہ حال ہی میں آگ کی واردات میں خاکستر ہوگئی دوسری یہ مسجد جو کہ خانیار کے شالہ باغ محلے میں واقع ہے جس سے یہاں عرف عام میں تھونگہ مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر
جہانگیر کے دور حکومت میں عقیل میر شاہی خاندان کے پانی کا منتظم ہوا کرتا تھا۔ کشمیری انسائیکلو پیڈیا Kashmiri Encyclopedia کے مطابق سنہ 1627 سے 1958 کے درمیان اُنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کروائی ۔البتہ وقت گزرنے جانے کے بعد یہ مسجد خستہ ہوکر منہدم ہوگئی۔جس کے بعد سنہ 1897 میں اس کے وقت جاگیر دار ثناء اللہ شال نے نہ صرف اس سے دوبار تعمیر کروایا بلکہ کئی کنال اراضی بھی اس مسجد کے نام وقف کی۔ 24 مربع فٹ مسجد بڈشاہی اینٹوں اور دیودار کی لڑکی سے بنائی گئی ہے۔ مسجد کی پہلی منزل میں چاروں طرف دیودار کی لکڑی پر نقشہ نگاری کرکے محراب کی شکل میں 4 فٹ لمبی اور 6 فٹ چوڑائی میں کھڑکیاں ہیں۔ مسجد کے اندر دیودار کی لکڑی سے بنائے گئے ستوں کو الگ الگ قسم کی نقشہ نگاری سے دید زیب بنایا گیا۔ وہیں مسجد کی دیواروں کو بھی پیر ماشی سے سجایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دہلی: تاریخی جامع مسجد آثارِ قدیمہ کی عدم توجہی کا شکار



اس قدیم مسجد کی دیکھ ریکھ اور نظم ونسق اس وقت تشکیل شدہ کمیٹی کے زیر نگرانی چل رہا۔جبکہ آمدنی مسجد کے نام پر وقف کی گئی زمین کے کرایہ اور محلے کے باشندگان کے چندہ سے حاصل ہوتی ہے۔

چونکہ سنہ 1897 میں مسجد کی ایک منزلہ بنائی گئی تھی تاہم سنہ 1986-87 ضرورت کے مطابق اور مسجد کی تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھ کر دوسری منزل تعمیر کی گئی۔ شناخت کے اعتبار سے پیپر ماشی کا خاص دھیان رکھا گیا ہے،تاکہ مسجد کو نہ صرف جاذب نظر بنایا جائے بلکہ اس کی تاریخی حیثیت کو بھی بر قرار رکھا جاسکے۔

مزید پڑھیں:Lucknow Jama Masjid Built by a Woman: لکھنؤ کی جامع مسجد جس کی تعمیر ایک خاتون نے مکمل کروائی



مسجد کی بنیاد اگرچہ عقیل میر نے ڈالی ہے لیکن یہ تھونگہ مسجد کے نام سے زیادہ 'Historical importance Of 'Thong e Masjid مشہور ہے۔ تاریخی مبصر ظریف احمد ظریف Historian Zarif Ahmad Zarif کہتے ہے کہ اس سے تھونگہ مسجد کیوں کہا جاتا ہے کئی تاریخی کتابوں کا مطالع کرنے کے بعد بھی یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

بہرحال اس طرح کی یادگاریں قوم کی نمائندگی اور شناخت کی عکاس ہوتی ہے۔ایسے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تاریخی اہمیت کے ایسے تعمیرات کو تحفظ فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مغل بادشاہوں نے جہاں اپنے دور حکومت میں بڑے بڑے باغات، قلعے، دروازے، مقبرے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ وہیں ان کے دور اقتدار میں وادیٔ کشمیر ایسے بھی مہتمم اور منتظم گزرے ہیں،جنہوں نے بھی اپنے نام سے نہ صرف کئی یادگاریں بلکہ کئی مساجد بھی تعمیر کیں جوکہ آج بھی انہیں کے نام سے مشہور ہیں۔ انہیں میں شامل ہیں مسجد عقیل میر اور تھونگہ مسجد۔


دراصل عقیل میر نے شہر خاص کے خانیار علاقے میں دو مساجد کی تعمیر کروائی۔ جن میں ایک حضرت شیخ سید عبدالقادرؒ کے آستان عالیہ کے متصل واقع ہے جو کہ حال ہی میں آگ کی واردات میں خاکستر ہوگئی دوسری یہ مسجد جو کہ خانیار کے شالہ باغ محلے میں واقع ہے جس سے یہاں عرف عام میں تھونگہ مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرینگر کی قدیم "تھونگہ مسجد" کا تاریخی پس منظر
جہانگیر کے دور حکومت میں عقیل میر شاہی خاندان کے پانی کا منتظم ہوا کرتا تھا۔ کشمیری انسائیکلو پیڈیا Kashmiri Encyclopedia کے مطابق سنہ 1627 سے 1958 کے درمیان اُنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کروائی ۔البتہ وقت گزرنے جانے کے بعد یہ مسجد خستہ ہوکر منہدم ہوگئی۔جس کے بعد سنہ 1897 میں اس کے وقت جاگیر دار ثناء اللہ شال نے نہ صرف اس سے دوبار تعمیر کروایا بلکہ کئی کنال اراضی بھی اس مسجد کے نام وقف کی۔ 24 مربع فٹ مسجد بڈشاہی اینٹوں اور دیودار کی لڑکی سے بنائی گئی ہے۔ مسجد کی پہلی منزل میں چاروں طرف دیودار کی لکڑی پر نقشہ نگاری کرکے محراب کی شکل میں 4 فٹ لمبی اور 6 فٹ چوڑائی میں کھڑکیاں ہیں۔ مسجد کے اندر دیودار کی لکڑی سے بنائے گئے ستوں کو الگ الگ قسم کی نقشہ نگاری سے دید زیب بنایا گیا۔ وہیں مسجد کی دیواروں کو بھی پیر ماشی سے سجایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دہلی: تاریخی جامع مسجد آثارِ قدیمہ کی عدم توجہی کا شکار



اس قدیم مسجد کی دیکھ ریکھ اور نظم ونسق اس وقت تشکیل شدہ کمیٹی کے زیر نگرانی چل رہا۔جبکہ آمدنی مسجد کے نام پر وقف کی گئی زمین کے کرایہ اور محلے کے باشندگان کے چندہ سے حاصل ہوتی ہے۔

چونکہ سنہ 1897 میں مسجد کی ایک منزلہ بنائی گئی تھی تاہم سنہ 1986-87 ضرورت کے مطابق اور مسجد کی تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھ کر دوسری منزل تعمیر کی گئی۔ شناخت کے اعتبار سے پیپر ماشی کا خاص دھیان رکھا گیا ہے،تاکہ مسجد کو نہ صرف جاذب نظر بنایا جائے بلکہ اس کی تاریخی حیثیت کو بھی بر قرار رکھا جاسکے۔

مزید پڑھیں:Lucknow Jama Masjid Built by a Woman: لکھنؤ کی جامع مسجد جس کی تعمیر ایک خاتون نے مکمل کروائی



مسجد کی بنیاد اگرچہ عقیل میر نے ڈالی ہے لیکن یہ تھونگہ مسجد کے نام سے زیادہ 'Historical importance Of 'Thong e Masjid مشہور ہے۔ تاریخی مبصر ظریف احمد ظریف Historian Zarif Ahmad Zarif کہتے ہے کہ اس سے تھونگہ مسجد کیوں کہا جاتا ہے کئی تاریخی کتابوں کا مطالع کرنے کے بعد بھی یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

بہرحال اس طرح کی یادگاریں قوم کی نمائندگی اور شناخت کی عکاس ہوتی ہے۔ایسے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تاریخی اہمیت کے ایسے تعمیرات کو تحفظ فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Last Updated : Dec 13, 2021, 5:31 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.