گزشتہ روز عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس نے شیر خوار بچی کو چھ روز کی مشقت کے بعد اپنی والدہ سے ملانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کے علاوہ پولیس نے اس معاملے میں پانچ افراد کو گرفتار بھی کیا۔
اگرچہ عدالت نے معاملے کی اہمیت سمجھ کر پولیس کو گزشتہ سماعت کے دوران بچی کی جلد بازیابی یقینی بنانے کی پولیس کو تقید کی تھی۔ وہیں بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ اُن پر ظلم اور ستم بیٹی کے پیدا ہونے سے ایک مہینے قبل ہی شروع ہوگیا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں اُنہوں نے کئی اہم معاملات جو کی عوام کی نظر سے پوشیدہ تھے ان پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔
بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ "جب میرا حمل 9 مہینے میں داخل ہوا اسی وقت سے میرے شوہر اور ساس کا رویہ میری طرف بدل گیا۔ میرے شوہر نے مجھ سے بات کرنے چھوڑ دیا اور ہمارے کمرے بھی علحیدہ کر دیے گئے۔ یہ سب کسی فرد کے کہنے پر کیا جا رہا تھا۔ "
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو میری ساس نے ہسپتال میں ہنگامہ کیا اور میرے کردار پر سوالات اٹھائے۔ یہ بھی کہا کی میں بچی کی پرورش کرنے کے اہل نہیں ہوں۔"بچی کی والدہ کے مطابق اُن کی شادی گزشتہ برس ہوئی تھی۔
نوزائیدہ بچی کی والدہ نے کہا کی "ہم پہلے دوست تھے، پھر محبت ہوئی اور پھر شادی کی۔ سب جلدی جلدی ہوا لیکن ہمارا رشتے خوبصورت تھا۔ پتہ نہیں پھر سب کیوں بدل گیا۔"
سسرال والوں کے تعلق سے اُن کا کہنا ہے کہ' بچی کی ڈلیواری کے بعد مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور میری نو زائیدہ کو جبراً مجھ سے چھین لیا گیا۔ جس کے بعد میں نے پولیس اور عدالت سے رجوع کیا۔"
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "عدالت میں معاملے کی پہلی سماعت کے دوران میرے سسُر ظہور احمد شاہ نے وادی کے دیگر سینئر وکلاء کے ہمراہ یقین دلایا تھا کہ مجھ کو میری بیٹی سونپ دی جائے گی۔ تاہم دوسری سماعت پر اُنہوں نے کہا کہ بچی کے والد اور دادی میری بات نہیں مان رہے ہیں۔"
بچی کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کے سسُر ہی اس معاملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ "وہ کئی بار مجھے دھمکی دے چکے ہیں کہ جیسا اُنہوں نے اپنے پہلی بیوی کے ساتھ کیا تھا ویسا ہی میرے ساتھ کریں گے'۔
مزید پڑھیں:
مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ "ابھی میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ ایسے وقت میں کوئی فیصلہ لوں آج معاملے کی سماعت ہے اس کے بعد واپس اپنے گھر جموں جانے کا ارادہ ہے۔"