سرینگر: طویل عرصے کے بعد میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق پہلی مرتبہ تاریخی جامع مسجد سرینگر میں آئندہ جمعہ کو خطبہ دے سکتے ہیں۔ میرواعظ کے قریبی ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ حریت کانفرنس کے سربراہ نے نماز جمعہ پر خطبہ دینے کی تیاری شروع کی ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکام انہیں نگین سرینگر میں واقع ان کی رہائش گاہ سے باہر قدم رکھنے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔ انکی رہائش گاہ کے سامنے سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو ابھی ہٹایا نہیں گیا ہے۔ لیکن جموں وکشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے حالیہ بیان کے بعد میر واعظ نے جامع مسجد میں خطبہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ After a long time, the possibility of Mirwaiz Mohammad Umar Farooq to deliver the Friday sermon
یہ بھی پڑھیں:
جموں وکشمیر کے ایل جی نے حال ہی میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق 5 اگست 2019 سے نظر بند نہیں تھے اور نہ ہیں۔ ماضی میں ان کے والد کو بدقسمتی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں میر واعظ کی حفاظت کے لیے ان کی رہائش گاہ کے اردگرد سکیورٹی رکھی جارہی ہے۔ انہیں خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران حریت کانفرنس نے ایل جی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق اگست 2019 یعنی گزشتہ 3 برسوں سے گھر میں مسلسل نظر بند رکھے گئے ہیں حالانکہ جموں وکشمیر کی تمام مذہبی تنظیموں سمیت دیگر تمام طبقات کی طرف سے حکام سے بار بار کی اپیلوں کے باوجود موصوف کو اپنے گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
اب سبھوں کی نظریں کل یعنی 26 اگست کے جمعہ پر ٹکی ہوئی ہیں کہ آیا جموں وکشمیر انتظامیہ میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کو اپنی رہائش گاہ سے جامع مسجد جانے کی اجازت دے گی یا نہیں؟ واضح رہے کہ 5 اگست 2019 سے جموں وکشمیر انتظامیہ نے میر واعظ محمد عمر فاروق کو کسی بھی مذہبی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ وہیں گزشتہ 3 برسوں کے دوران تاریخی جامع مسجد نمازیوں کے لیے متعدد بار بند بھی رکھی گئی ہے۔
میرواعظ عمر فاروق، کشمیر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی ہیں اور علیحدگی پسند اتھاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے سید علی گیلانی اور یاسین ملک کے ساتھ جوائنٹ ریزسٹنس لیڈرشپ (جے آر ایل) بنایا تھا جو علیحدگی پسند جماعتوں کا ترجمان اتحاد قرار دیا جاچکا تھا لیکن یاسین ملک کی گرفتاری اور سید علی گیلانی کی موت کے بعد اس اتحاد کا وجود عملی طور ختم ہوگیا ہے۔ حریت کانفرنس کے دو دھڑوں کے اکثر لیڈر یا تو جیلوں میں بند ہیں یا انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کی ہے۔ اس پس منظر میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ میرواعظ کی ممکنہ رہائی کے بعد وہ کونسی سیسی حکمت عملی اپنائیں گے۔