میری یہ 5۔7 اشعار کی غزل میرے والد صاحب کو بہت پسند آئی اور انہوں نے میری خوب حوصلہ افزائی کی۔ پھر میں نے ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنے شروع کردیے۔ پہلے ملاپ اور پرتاپ کے نام سے اخبار آتے تھے، جس میں عنوان کے نام پر ایک کالم آتا تھا جس میں وہ ایک تصویر دیتے تھے، جس پر شعر بھیجنا ہوتا تھا۔ تب میں تصویر دیکھ کر شعر بھیجتا تھا۔ ان شعروں کو ہم پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھیجا کرتے تھے، جب ہمارا اخبار میں شعر چھپ جاتا تھا تو ہمیں کافی خوشی ملتی تھی۔

اسی طرح سے سلسلہ چلتا رہا اور میرے والد صاحب مقامی نشستوں میں مجھے لے کر جانے لگے اور میرٹھ، سہارنپور اور آس پاس کے اضلاع میں نشستیں ہوتی رہیں۔ سنہ 1966 میں شاعری کے آغاز کے بعد 1967 میں میں نے مظفرنگر کے نمائش گراؤنڈ میں پہلا آل انڈیا مشاعرہ پڑھا۔ اس کے بعد مجھے آگے بڑھنے کا موقع ملا اور بہت سے مشاعروں میں میں نے اپنا کلام پڑھا اس کے علاوہ نیوز چینلز پر بھی میرا کلام نشر کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سے نئی نسل کے بے شمار شعرا نے رہنمائی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں:Dilip Kumar's Journey: لیجینڈری اداکار دلیپ کمار کا فلمی سفر
انہوں نے مزید کہا کہ اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت کے ذریعے مجھے امن و شانتی کا ایوارڈ، پاشا اردو لائبریری کی جانب سے مظفرنگر محسن اردو ایوارڈ، مظفرنگر ساہتیہ بھوشن وگیان سنستھان شاملی، وقارِ ادب، فخرِ ادب ساہتیہ پرکاش وغیرہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ان کے پیش کیے گئے کچھ کلام
تیری آنکھوں سے اوجھل دیکھتا ہوں
جو منظر میں مسلسل دیکھتا ہوں
میرے جذبات کا آئینہ بنے رہتے ہیں
اشک بہتے نہیں پلکوں پر جمے رہتے ہیں
جب تک کوئی کمی تیرے ایماں میں نہیں
تو جان سے بھی جائے تو نقصان میں نہیں
پھل نہیں دیتا نہ دیے سایہ تو دے گا تم کو
پیڑ بوڑھا ہی سہی گھر میں لگا رہنے دو
ہم مل کر پکاریں تو پلٹ آئے گا ماضی
او میری آواز میں آواز ملا دو
زباں پہ نام محمد جو بار بار آئے
تو زندگی پہ مجھے اپنی اعتبار آئے
یہ مرتبہ مجھے دیارِ مصطفیٰ سے ملا
کہ سلسلہ میرا سرکارِ مصطفیٰ سے ملا
تعلقات کے تحفے سنبھال کر رکھنا
ملے ہیں زخم جو گہرے سنبھال کر رکھنا
سکون دیتے ہیں تنہائیوں کے موسم میں
تمام درد کے رشتے سنبھال کر رکھنا