ریاست بہار کے ضلع ارریہ کی شریف النفس علمی، ادبی و تہذیبی شخصیت زبیر الحسن غافل کے انتقال پر آج ان کے آبائی گاؤں کملداہا اسٹیٹ میں بنیا سماج کی جانب سے ایک تعزیتی نشست منعقد کی گئی جس میں قرب و جوار سے درجنوں کی تعداد میں غیر مسلم اشخاص نے شرکت کی تاہم تعزیتی نشست کی صدارت مکھیا مہاویر نے کی۔
واضح رہے کہ سبکدوش جج و شاعر زبیر الحسن غافل کا انتقال گزشتہ دنوں پٹنہ کے پارس ہسپتال میں انتقال ہوا تھا وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بیمار چل رہے تھے۔
ان کی وفات سے ارریہ کا علمی، ادبی اور علمی حلقہ میں غم کی لہر ہے تاہم ان کی عمر 78 برس تھی اور گزشتہ کئی ماہ سے پٹنہ کے پارس ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
نشست سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین مولانا عارف قاسمی نے کہا کہ زبیر الحسن غافل ارریہ کی عوام کے لیے ایک مربی اور سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے، وہ ادیب ہونے کے ساتھ علماء کے سب سے بڑے قدردان تھے۔
![سبکدوش جج و شاعر زبیر الحسن غافل کے انتقال کے بعد غیر مسلموں کی جانب سے تعزیتی نشست کا اہتمام](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/br-ara-02-taziyat-visbyte-7204693_03022021180925_0302f_02716_790.jpg)
دینی مزاج کے ساتھ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر انہوں نے جتنے بھی کارخیر کیے ہیں وہ ہم سب کے لیے ایک نمونہ ہے۔
زبیر الحسن مرحوم کے صاحبزادے و آئی آر ایس اسلم حسن نے کہا کہ 'میرے والد کو اللہ نے کئی خوبیوں کا مجموعہ بنایا تھا، انہوں نے اڈیشنل جج کے عہدے کا پورا احترام کرتے ہوئے ہمیشہ منصفانہ طرز عمل اختیار کی، وہاں سے سبکدوش ہوئے تو اردو ادب کی خدمت میں لگ گئے اور طویل وقت تک ارریہ شہر کی ادبی محفلوں کو زینت بخشی'۔
![ایک تعزیتی نشست منعقد کی گئی جس میں قرب و جوار سے درجنوں کی تعداد میں غیر مسلم اشخاص نے شرکت کی](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/br-ara-02-taziyat-visbyte-7204693_03022021180925_0302f_02716_276.jpg)
انہوں نے کہا کہ 'ان کا نام ادبی حلقوں میں بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا تھا، وہ طنز و مزاح کے بڑے شاعر تھے، ان کا مجموعہ کلام 'اجنبی شہر' سنہ 2006 میں شائع ہوا تھا جو بے حد مقبول ہوا اور 1993 میں بہار اردو اکادمی کے مجلہ 'زبان و ادب' کے ایک شمارہ میں ان کی شاعری پر ایک خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا تھا'۔
صحافی پرویز عالم نے کہا کہ زیبر الحسن غافل صاحب سماجی طور پر بھی بہت فعال تھے، ارریہ کے اکثر مسائل پر فکرمندی کا اظہار کرتے اور اس کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے نظر آتے۔
وہ علاقے میں آپسی بھائی چارہ کے ایک میل سمجھے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلم کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھائی بھی ان کے انتقال کو اپنا خسارہ سمجھ رہے ہیں۔