ریاست اترپردیش کے ضلع مظفرنگر میں ہولی کےموقع پر مظفر نگرسیکولر فرنٹ فیملی کی جانب سے گوہر صدیقی کی سربراہی میں آپسی بھائی چارہ اور پیار محبت کو برقرا رکھتے ہوئے کوی سمیلن اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت استاد شاعرعبدالحق سحر اور سلامت راہی نے کی۔
اس پروگرام میں سبھی مذاہب کی معزز شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں کے ذمہ داروں اور تاجروں نے شرکت کی۔Poetry Program on the occasion of Holi in Muzaffarnagar
دیر رات تک چلے اس پروگرام میں شعراء اور کویوں نے اپنے کلام سے سماں باندھا اور آپسی بھائی چارے اور پیار محبت کو بڑھانے والے اس پروگرام کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس پروگرام میں شریک ہوئے شعرائے کرام میں عبدالحق اصاروی سویتا غزل ڈاکٹر مکیش درپن معروف کوئی ڈاکٹر پردیپ جین معروف شاعر تنویر گوہر ارشاد ضیا سمیت اور بھی بہت سے شعراء کرام نے شامل رہے اور اپنے کلام سے محفل میں چار چاند لگائے۔
مظفر نگر میں ہولی کے تہوار کے موقع پر لگنے والی رنگوں کی دکانوں میں مسلم نوجوانوں کی دوکانیں بھی شامل ہیں جو آپسی بھائی چارے کی مثال قائم کر رہی ہیں، انہیں دکانوں میں سے محمد ارشد کی بھی دوکان ہے انہوں نے بتایا کہ میں گزشتہ پانچ برسوں سے ہولی میں استعمال ہونے والے رنگوں پچکاریوں اور گلال کی دکان لگا رہا ہوں مجھے دکان لگا کر کافی خوشی ملتی ہے میری دکان پر سبھی لوگ رنگ خریدنے کے لئے آتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو رنگ لگا کر ہولی کی مبارکباد بھی دیتے ہیں اور آپسی بھائی چارے کی مثال پیش کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کی لوگوں میں آپسی بھائی چارہ بنا رہے دوریاں ختم ہو اور سبھی تہواروں کو مل جل کر آپس میں ایک دوسرے کا تہوار بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے
ایسے ہی ہولی کے موقع پر آج ہم آپ کو لے چلتے ہیں دارالحکومت جے پور کے منیہاروں کے راستہ میں جہاں پر مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے لوگ گزشتہ سات نسلوں سے گلال گوٹا بنانے کا کام کر رہی ہیں۔
یہ گلاب گوٹا راجہ مہاراجاؤں کے لئے تیار کیا جاتا تھا اور اب موجودہ وقت میں راجہ مہاراجاؤں کے خاندان کے ساتھ ساتھ عام عوام کے لیے بھی بازار میں موجود رہتا ہے، گال گوٹے کا کاروبار کرنے والے کاروباری و کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو گلال کوٹا بنانے میں کافی محنت لگتی ہے، اس گلال کوٹے کی قیمت زیادہ نہیں ہے، ہم لوگوں کو ہولی کے موقع پر جو گلال گوٹا ہوتا ہے اس سے زیادہ کمائی نہیں ہوتی ہے ہم تو بس جو روایت ہمارے بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے اس روایت اور ثقافت کو مکمل کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو برقرار رکھ رہے ہیں۔
ان کاروباریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برس سے جس طرح سے عالمی وبا کورونا کے تحت کی وجہ سے ہولی کاجو تہوار ہے اس کو اچھے منایا نہیں پا رہے ہیں، لیکن اب ہم لوگ کافی دھوم دھام سے منا رہے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارا جو کاروبار ہے وہ کورونا کی وجہ سے کافی کم ہو گیا تھا لیکن اس مرتبہ اچھا نظر آرہا ہے۔