شیوسینا کے ترجمان اخبار سامنا نے اروناچل پردیش میں آباد’’ شوگر گاؤں‘‘ کے معاملے پر مرکز کی مودی حکومت پر سوالات اٹھاتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ' چین نے بھارتی سرحد میں داخل ہو کر اروناچل پردیش میں ایک گاؤں بسا لیا ہے یہ سب ایک ہی رات میں نہیں ہوا بلکہ کئی مہینوں سے چینی فوجی اور وہاں کے سرخ بندروں کی حکومت اس گاؤں کو آباد کرنے میں مصروف تھی جس وقت چین ہندوستانی علاقے میں گھس کرایک نئے گاؤں کی تعمیر کررہا تھا اس وقت ہمارے پردھان سیوک کیاکر رہے تھے'؟
اخبار میں مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے مزید لکھا گیا ہے کہ' چینی فوجی اور انتظامیہ اس تعمیراتی کام کے لئے مستقل مصروف عمل تھے۔ تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والے لوازمات آرہے تھے۔لیکن ہماری مرکزی حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ اسی طرح لداخ میں کئی کلومیٹر تک بھارتی علاقوں میں گھس کر چین نے ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی پر قبضہ کرلیا۔
اسی طرح ایک بار پھر چینیوں نے بھارت کی حدود میں داخل ہو کر اروناچل میں ایک نیا گاؤں آباد کیا۔ اگرچہ ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ انہوں نے صرف ایک گاؤں بسایا ہے یا دو تین گاوں تعمیر کیے ہیں اس معاملے پر وزارت خارجہ ہی روشنی ڈال سکتی ہے۔
اخبار نے آگے لکھا کہ' بدقسمتی سے جب لداخ کی وادی گلوان میں چینی گھس گئے مگرہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا کہ چینی فوجی ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ چینی حکومت وادی گلوان میں اس سے پہلے دخل اندازی سے انکار کرتی تھی۔ بدنامی کے خوف سے ہماری حکومت کا ابتدائی کردار بھی یہی تھا جس نے چین کو موقع دیا اور وادی میں گلوان میں انہوں نے خود کو مضبوط کیا۔
اب چین نے اروناچل پردیش میں ایک نیا گاؤں تعمیر کرلیا ہے اس طرح کی شکایات سیٹلائٹ کی تصاویر کے ساتھ ساتھ حکومت تک بھی پہنچی ہیں۔ چین کے ذریعہ تعمیر کردہ اس گاؤں کو دیکھ کر ملک کے ہر شہری بے چین ہوجائیں گے اور اس کا دماغ بھی گرم ہوجائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا عوامی ذہن کی آگ حکومت کے ذہن میں جائے گی؟
واضح رہے ڈوکلام تنازعہ میں ذلت آمیز شکست کے بعد غصے میں آکر چین نے اروناچل پردیش میں بھارتی سرحد کے اندر تقریبا ساڑھے چار کلومیٹر دور ایک گاؤں قائم کیا ہے۔ یہ علاقہ اروناچل پردیش کے بالائیسبنسری ضلع میں واقع ہے۔ اس چینی گاؤں کے سیٹلائٹ تصویر میں آنے کے بعد گاوں کے اندر کی تصاویر اب سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔
جن میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ چینی گاؤں میں چوڑی سڑکیں اور کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔چینی گاوں میں سینکڑوں کے قریب مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان مکانات میں چینی باشندے آباد ہیں۔ گھروں پر چینی جھنڈا بھی لگا ہوا ہے۔ ڈریگن کی اس نئی چال کے پیچھے چینی صدر کا ایک خطرناک منصوبہ سامنے آ رہا ہے، جس کے تحت600 گاؤں بنائے جارہے ہیں۔
بھارت کے دفاعی ذرائع کے مطابق سنہ 1995 سے چین اروناچل پردیش کے اس علاقے پر قابض ہے۔ کچھ سال پہلے چینی فوج نےیہاں ایک فوجی چوکی قائم کی جو سطح سمندر سے تقریبا 2700 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔
مزید پڑھیں: شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کسانوں کی حمایت میں اترے
ڈوکلام واقعے کے بعد اب چینی فوج نے علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ چین نے1959 میں آسام رائفلز کو ختم کرکے اس علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ تب سے یہ علاقہ چینی فوج کے کنٹرول میں ہے۔