سامنا میں لکھا ہے کہ فیول گیس کی شرح میں اضافے کے بارے میں اب عام لوگوں کا حال برا ہو رہا ہے، مگر مرکزی حکومت ان باتوں سے بے پرواہ ہو کر صرف بڑی بڑی باتیں کرتی ہے، مودی سرکار کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ اور ہے۔
اس وقت معاشی دارالحکومت ممبئی میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عروج پر ہے، پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام کا برا حال ہے، یونین بجٹ میں حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کے ساتھ زرعی استعمال کی چیزوں کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا، اس بات کا اشارہ دیا تھا لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہوسکا۔
اس معاملے میں نہ صرف پٹرول اور ڈیزل بلکہ رسوئی گیس کے ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، مرکزی حکومت اپنے وعدے سے منہ پھیر لیتی ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 35 سے 37 پیسے تک بڑھ گئی ہے۔
چار روز قبل ایک سرکاری وزیر نے کہا تھا کہ پٹرول اور ڈیزل پر عائد سیس کے نتیجے میں پٹرول اور ڈیزل کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، پھر یہ قیمتیں چار دن میں کیسے بڑھیں؟ ہمیشہ کی طرح مرکز کی مودی سرکار بین الاقوامی منڈی میں اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں صدائے احتجاج بلند کرے گی یا پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموش بیٹھے گی۔
یہ سیس پٹرول پر ڈھائی روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر4 روپے فی لیٹر وصول کیا جائے گا، سامنا نے سوال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گیس ایندھن کی شرح میں اضافہ کتنا کم ہے؟ کیوں اس کا تعلق سیس سے نہیں ہے؟
ایل پی جی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا، ایل پی جی کی شرح میں کتنا اور کیوں اضافہ ہوا ہے؟ حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ لیکن اس کے بارے میں تشویش اس بات پر ہے کہ ایل پی جی سلنڈر مہنگے ہیں اور کمرشل گیس سلنڈر سستے ہیں۔
ایل پی جی سلنڈر براہ راست 25 روپے مہنگے ہوئے جبکہ کمرشل گیس سلنڈر 5 روپے سستے ہوئے ہیں، قیمتوں کا تعین کرنے کی یہ کیسی پالیسی ہے؟ یعنی عام جنتا جو ایل پی جی استعمال کرتے ہیں اسکی قیمت میں اضافہ اور پیشہ ور افراد کو وہ سیلنڈر کم داموں میں؟
عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سامنا نے مزید لکھا ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے عام آدمی کی کمر پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے، سینکڑوں لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو برسر روزگار ہیں ان کی نوکریاں بھی خطرے میں ہیں، ایسے وقت میں جب آپ عوام کے جیبوں میں کچھ ڈال نہیں سکتے تو جو روٹی روزی حاصل کرنے کی تغ و دو کر رہے ہیں اسے کیوں چھینتے ہو؟
مرکزی مالی بجٹ میں صرف اور صرف سنہرے خوابوں کی بارش کرنے والی حکومت متوسط طبقے اور ملازمت کی متلاشی غریب عوام کو انکم ٹیکس میں چھوٹ نہیں دے سکی۔