مہاراشٹر میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے 20 سال قبل مولانا آزاد اقلیتی مالیاتی ترقیاتی کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، ایک دہائی بعد یعنی دو ہزار گیارہ میں کارپوریشن میں عملے کی تعیناتی ہوئی کی گئی۔ 157 پوسٹوں میں سے صرف 50 پوسٹوں پر تقرری عمل میں آئی، وہ بھی جزوقتی کے طور پر طور پر۔ انہیں 6 تا 15 ہزار روپئے ماہانہ تنخواہوں پر رکھا گیا تھا تاہم 20 ملازمین نے ابتدا میں ہی کارپوریشن سے ناطہ توڑلیا جبکہ تیس ملازمین جنہیں ڈسٹرکٹ افسر کہا جاتا ہے، گذشتہ 10 برسوں سے برائے نام تنخواہوں پر کام کررہے ہیں۔ رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے اس معاملہ میں حکومت پر تعصب برتنے کا الزام عائد کیا۔
حکومت کی سرد مہری کا شکار مولانا آزاد فائنانس کارپوریشن کے ملازمین نے بالآخر بامبے ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے جس کے بعد اگست 2019 میں کورٹ نے ملازمین کی تقرری کی جانچ کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی جس کےلیے 3 ماہ کی مہلت دی گئی۔ عدالت کی ہدایت کے بعد کمیٹی تو تشکیل دی گئی لیکن اس کمیٹی کی کبھی بھی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی جبکہ حکومت گذشتہ دو سال سے عدالت سے مہلت مانگ رہی ہے۔ آخر کار گذشتہ ماہ بامبے ہائی کورٹ نے حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے انتباہ دیا اور اندرون 2 ماہ 30 ضلع افسران کو مستقل کرنے کی ہدایت دی۔ کارپوریشن کے ملازمین نے اس معاملے میں ایم پی امتیاز جلیل سے ملاقات کرکے مشکلات سے واقف کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی ہند نے میناریٹی بجٹ کو مکمل خرچ کرنے کا مطالبہ کیا
قابل ذکر بات یہ ہیکہ مہاراشٹر میں 36 اضلاع ہیں اور مالیاتی کارپوریشن کے ملازمین کی مجموعی تعداد محض 30 ہے، ایسے میں ریاستی حکومت مولانا آزاد فائنانس کارپوریشن کے تحت ریاست میں کروڑوں روپئے کی تقسیم کا دعوی کرتی ہے لیکن اس تقسیم کو یقینی بنانے والے ہاتھ ہی اگر خالی ہوں، تو مستحق تک امداد کیسے پہنچے گی، اس کا اندزہ لگایا جاسکتا ہے۔