ریاست مہاراشٹرمیں مقیم پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ اگر بھارت میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اسکالرشپ scholarship یا حکومت سے قرض کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومتی اسکیم کے تحت انھیں یہ خدمات مہیا کرائی جاتی ہیں لیکن اگر بیرون ممالک میں کوئی بھی طلبہ جو اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو اسکے لئے حکومت نے کوئی اسکیم یا کوئی پالیسی اب تک نہیں بنائی جسکی وجہ سے کئی ہونہار طلبہ بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ دوسری ذات سے وابستہ پسماندہ طبقے کے لئے حکومت نے باقائدہ پالیسیاں بنائی ہیں ان پالیسیوں کے تحت وہ نہ صرف حکومت سے قرض لے سکتے ہیں بلکہ اسکالر شپ کی بھی سہولتیں دی گئی ہیں جو پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا طالب علم یا امیدوار بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے حاصل کر سکتا ہے ۔
مولانا آزاد فائینینشل کارپوریشن Maulana Azad Financial Corporation میں کئی برسوں تک اپنی خدمات انجام دینے والے کانگریس رکن اسمبلی امین پٹیل سے اس بارے میں ہم نے خاص بات چیت کی اس بات چیت میں امین پٹیل نے بتایا کہ ممبئی ہائی کورٹ ،سچر کمیٹی ،شری کرشنا کمیشن رپورٹ میں اس بات کا کئی بار ذکر کیا گیا ہے کہ تعلیم کے معاملے میں مسلمان بہت ہی پیچھے ہے یہی نہیں بلکہ افلاس غربت اور پسماندگی سے دو چار ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہونے حکومت کو یہ خط لکھ کر آگاہ کیا اور بیرون ممالک میں اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے حکومت کے ذریعہ میرٹ کو بنیاد پر تعلیم کے اخراجات برداشت کرے ۔
اس مطالبے کے دوران اس وقت کے وزیرِ اعلٰی اشوک چوہان نے اس مطالبے کو منظوری دیتے ہوئے اُنکے خط کو آگے بڑھایا لیکِن یہ مطالبہ سرکاری دفتر اور ٹوکریوں کے نظر ہو گیا۔