شہر کے کونے کونے سے ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افراد دونوں قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے ڈی سی پی آفس پر پہنچ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کے خفیہ محکمے نے پہلے سے ہی اس کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جس کی بنیاد پر بھیونڈی پولیس نے کسی ناخوشگوار حالات سے نمٹنے کے لیے سخت پولیس بندوبست کیا تھا۔
جمعہ کی صبح اور دوپہرکے بعد احتیاطی طور پر اسکولوں کو بند کردیا گیا تھا۔اس کے علاوہ شہر کی زیادہ تر دکانیں بند رہی اور آٹو رکشا وغیرہ بھی کم ہی چل رہے تھے۔ مظاہرے میں بچے، نوجوان اور بزرگ سڑکوں پر تختیاں لیے ہوئے تھے، جس پر حکومت مخالف نعرے تحریر تھے۔ زیادہ تر لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں سیاہ پٹی بھی باندھ رکھی تھی۔مارچ میں شامل افراد مرکز کے نریندر مودی حکومت کے خلاف جم کر نعرے بازی کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف زبردست نعرے بازی ہوئی۔اس تاریخی مجمع کی سب خاص بات یہ تھی کہ یہ کسی سیاسی جماعت یا تنظیم کے انعقاد یا کسی کی قیادت میں نہیں آئے تھے۔ پھر بھی اس احتجاج میں لاکھوں لوگ شامل ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تاریخی احتجاج کے لیے کسی طرح کی کوئی تشہیر نہیں کی گئی تھی۔
لاکھوں شہریوں پر مشتمل مارچ ڈی سی پی آفس پہنچا اور ایک مطالباتی مکتوب دیا جسکے بعد ڈی سی پی راج کمار شندے نے مظاہرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا اجتماع کے باوجود یہ مارچ امن و امان کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔اس کے لیے بھیونڈی پولیس انتظامیہ سب کا شکریہ ادا کرتا ہے۔اس کے بعد ڈی سی پی کو ایک میمورنڈم سونپ کر شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جوائنٹ پولیس کمشنر ڈاکٹر سریش کمار میکلا نے پرامن احتجاج کیلئے شہریوں کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے امن کمیٹی اور مساجد کے امام،ٹرسٹیوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔