اتر پردیش کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لئے یوگی حکومت نے دو بچوں کی پالیسی پر مبنی آبادی کنٹرول فارمولا تیار کیا ہے۔ گزشتہ روز عالمی یوم آبادی کے موقع پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے جاری کردیا ہے۔ حکومت کے اس اقدام کو کہیں سراہا جارہا ہے تو دوسری جانب ریاست کی حزب اختلاف کی جماعت سے وابستہ مسلم رہنماؤں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
مرادآباد سے ایس پی کے رکن پارلیمان ایس ٹی حسن نے یوگی حکومت کے اس مسودے کو انتخابی اسٹنٹ قرار دیا جب کہ انہوں نے پہلے ایک مرتبہ آبادی کنٹرول قانون بنانے کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کی پالیسی کو ہندو مسلم میں تبدیل کردیا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں یہ انتخابی فوائد کے لئے استعمال ہوگا اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس سے پہلے ڈرافٹ کے اجراء کے ساتھ ہی سنبھل لوک سبھا سیٹ سے ایس پی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمٰن برق نے ردعمل ظاہر کیا اور ایک عجیب و غریب بیان دیا۔ شفیق الرحمٰن برق نے اتر پردیش میں مجوزہ آبادی قانون پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون بنانا حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کون روک سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ملالہ ڈے آج کیوں منایا جاتا ہے؟
واضح رہے کہ اتوار کے روز سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش پاپولیشن پالیسی 2021 (اتر پردیش کی آبادی پالیسی مسودہ- 2021) جاری کیا۔ نئی آبادی کی پالیسی جاری کرتے ہوئے یوگی حکومت نے اس پر عوام سے 19 جولائی تک رائے طلب کی ہے۔ اس آبادی کی پالیسی میں، بنیادی طور پر اگر دو سے زیادہ بچے ہیں تو سرکاری بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے اور سرکاری ملازمتوں میں درخواست دینے سے روکنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی مسودے میں یہ دستور پیش کیا گیا ہے کہ دو سے زیادہ بچے رکھنے والوں کو 70 سے زیادہ سرکاری اسکیموں اور ریاستی حکومت کی گرانٹ سے محروم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بلدیاتی اور پنچایت انتخابات میں حصہ لینے والے عوامی نمائندوں کو ایک بیان حلفی دینا ہوگا کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ اگر دو سے زیادہ بچے ہیں تو وہ بلدیاتی ادارہ یا پنچایت انتخابات میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔