گذشتہ ماہ 21 دسمبر کو سی اے اے کےخلاف احتجاج کے دوران اتر پردیش پولیس نے درجنوں مظاہرین کو حراست میں لیا تھا جبکہ متعدد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس سلسلے میں بعد نماز جمعہ علماء کرام و دیگر سماجی کارکنان نے اعلان کیا کہ وہ ان کی رہائی کے لیے ہرممکن اقدامات کریں گے۔
انہوں نے انتظامیہ کو 29 جنوری تک انتباہ دیتے ہوئے مزاحمتی قرارداد بھی پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر 29 جموری تک آپ بے گناہ افراد کو رہا نہیں کرتے تو ہم 30 جنوری کو آپسی مشورہ کرکے قانون کے دائرے میں بڑے فیصلے لینے پر مجبور ہوں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 21 دسمبر کے احتجاجی مظاہرے کے بعد پولیس نے 28 افراد کو مختلف دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا جبکہ ہزاروں نامعلوم مظاہرین کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں رامپور کی سماجی شخصیات اور علماء کرام مسلسل ضلع کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرکے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور نامعلوم افراد کے خلاف دائر مقدمے کو منسوخ کرانے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن انتظامیہ علماء اور دیگر حضرات کو صرف یقین دہانی کراتا رہا اور 21 دسمبر سے اب تک ایک بھی شخص کی رہائی نہیں ہو سکی اور نہ ہی مقدمے منسوخ ہوئے۔
دوسری جانب گرفتار شدہ مظاہرین کے اہل خانہ اپنوں کی رہائی کے مطالبات کے ساتھ گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل جامع مسجد میں آکر بیٹھ رہےہیں جنہیں شہر کی دیگر خواتین کی حمایت حاصل ہے۔
خواتین کا علماء پر مسلسل بڑھتا دباؤ دیکھ کر علماء نے اپنی ہنگامی میٹنگ منعقد کرکے بعد نماز جمعہ جامع مسجد سے اعلان کردیا کہ اب افسران کو ہم 29 جنوری تک کا مزید وقت دیتے ہیں اگر اس کے بعد بھی افسران نے ہمارے ان افراد کی رہائی نہیں کی تو ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بڑے فیصلے لینے پر مجبور ہوں گے۔'
قاضی شہر سید خوشنود میاں نے اپنے پانچ مطالبات کا میمورنڈم پڑھتے ہوئے کہا کہ 'اتنی سخت سردی میں یہ خواتین اپنے گھروں سے روز جامع مسجد اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ پہنچ رہی ہیں، یہ کافی تکلیف میں ہیں، 'سبھی غریب گھروں سے تعلق رکھتی ہیں ان کے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے جو تھا وہ پولیس کی حراست میں ہے۔'
قاضی شہر کے میمورنڈم پڑھنے کے بعد تمام حاضرین نے ہاتھ اٹھاکر مطالبات کی تائید کی، وہیں خواتین بھی اپنے علماء کے اس فیصلے پر مطمئن نظر آئیں۔