میرٹھ کے اکبر پور گاوں سے تعلق رکھنے والی روبینہ کے والد پیشے سے نجاری کا کام کرتے ہیں۔خاطر خواہ آمدنی نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کے لیے اولمپک کی تیاری میں استعمال ہونے والے آلات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس کے باوجود وہ بیٹی کی کامیابی کے لیے مسلسل کو شاں ہیں۔
روبینہ نے سال 2012 سے نشانے بازی میں اپنی قسمت آزمانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ اب تک 4 نیشنل میچ اور دو انٹرنیشنل میچ کھیل چکی ہیں۔
گھریلو پریشانیوں کے باوجود اپنی ذہانت ،محنت اور لگن کے بل پر سنہ 2012 میں روبینہ نے گولڈ میڈل جیتا اور 2014 میں گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد جرمنی اور فرانس میں نشانہ بازی میں حصہ لیا اور وہاں بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔
ان کی متاثر کن کارگردگی سے متاثر ہوکر اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے روبینہ کو اعزاز سے نوازا تھا۔ حال ہی میں اترپردیش کے گورنر رام نائک نے بھی روبینہ کو اعزاز سے نوازا ہے۔
روبینہ کہتی ہیں کہ :' جب بھی مشق کرتی ہوں تو کرائے پر لیے گئے اسلحہ سے کرتی ہوں، اگر میرے پاس میرا ذاتی اسلحہ ہو تو مشق میں بڑی آسانیاں ہوگی لیکن پیسے کی تنگی کے باعث اسلحہ خرید نہیں سکتے'۔
خیال رہے کہ نشانے بازی میں استعمال ہونے والے اسلحے کی قیمت 10لاکھ روپے ہے۔
بہن بھائیوں میں سب سے بڑی روبینہ پر گھریلوں ذمہ داریاں بھی ہیں اور وہ مالی طور پر گھر کی مدد میں آگے بھی رہتی ہیں۔ فی الحال وہ بی ایس ایف میں ملازمت کررہی ہیں۔