ETV Bharat / city

'صحافی صدیق کپن کو حراست میں پیٹا گیا' - سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ صدیق کپن کی ہاتھراس

کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ صدیق کپن کی ہاتھرس جاتے ہوئے راستے میں مبینہ "غیرقانونی گرفتاری اور نظربندی" کے حقائق کا تعین کرنے کے لئے ایک اعلیٰ عدالت کے سبکدوش جج کے ذریعہ آزادانہ تحقیقات کرائی جائے۔ ہاتھرس میں اجتماعی ریپ کے بعد دلت لڑکی کی موت ہوگئی تھی۔

kappan beaten
kappan beaten
author img

By

Published : Dec 2, 2020, 12:08 PM IST

کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) نے کیرالہ کے رپورٹر صدیق کپن کی نظربندی کو چیلینج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے اور اترپردیش حکومت کے الزام کی بھی تردید کی ہے جس میں اترپردیش حکومت نے صدیق کپن پر الزام لگایا ہے کہ وہ پی ایف آئی کا حصہ ہیں اور ہاتھرس میں بدامنی پھیلانے کے مقصد سے وہاں جا رہے تھے۔

یونین نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ صحافی کپن کو "حراست کے دوران تین بار پیٹا گیا اور اسے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا"۔

عدالت عظمیٰ میں دائر جوابی حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے دعویٰ کیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے ایک "بالکل جھوٹا اور غلط بیان" دیا ہے کہ کپن پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے دفتر سکریٹری ہیں کیونکہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔''

ملزم صدیق کپن نے خصوصی طور پر وکیل سے درخواست کی کہ وہ عدالت سے یہ درخواست کریں کہ وہ اسے نارکو تجزیہ ٹیسٹ یا برین میپنگ ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ یا کسی دوسرے سائنسی ٹیسٹ سے گزرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔

جوابی حلف نامہ اترپردیش حکومت کے ذریعہ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل داخل کرنے کے بعد دیا گیا جس میں اترپردیش حکومت کے ذریعہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدیق کپن ذات پات کی تفریق اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کے لئے ایک "صحافت کے لبادے" میں ہاتھرس جا رہے تھے۔

ریاست نے اپنے حلف نامے میں یہ الزام لگایا ہے کہ صدیق کپن پی ایف آئی کے آفس سیکرٹری ہیں اور وہ ایک کیرالہ سے تعلق رکھنے والے اخبار کا شناختی کارڈ دکھا کر کام کر رہے تھے جو سنہ 2018 میں ہی بند ہوچکا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کے یو ڈبلیو جے کی درخواست پر سماعت کی ہے جس میں صدیق کپن کی گرفتاری پر سوال اٹھائے ہیں اور ان کی ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے الزام لگایا ہے کہ ریاست نے "گمراہ کن حلف نامہ دائر کیا ہے، جس میں حقائق کو غلط بیان کرتے ہوئے ان کی غیر قانونی نظربندی اور بدنیتی پر مبنی قانونی کارروائی کا جواز پیش کیا ہے" اور ان کے خلاف الزامات کی حمایت کرنے کے لئے کوئی مواد موجود نہیں ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ملزم پاپولر فرنٹ کے ساتھ کسی بھی طرح براہ راست یا بالواسطہ یا اس کی کسی بھی سرگرمی سے نہیں جڑے ہوئے ہیں اور وہ دہلی میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کے لئے ایک ریٹائرڈ جج مقرر کرنا چاہئے۔

ایف آئی آر کے بغور مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملزم بے قصور ہے۔ گرفتاری کی تاریخ سے 29 دن تک ملزم کو اس کے کنبے سے ملنے نہیں دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

کے یو ڈبلیو جے کی جانب سے صدیق کپن کی گرفتاری سے متعلق دائر درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے ریاست نے پہلے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ یہ "برقرار نہیں ہے" اور درخواست گزار کے پاس "کوئی لوکس نہیں ہے" کیونکہ ملزم پہلے ہی اپنے وکیل اور رشتہ داروں سے رابطے میں ہے اور وہ خود اپنے وکلاء کے توسط سے کارروائی درج کر سکتے ہیں۔

صدیق کپن کو 5 اکتوبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس جارہے تھے، جہاں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی جس کی علاج کے دوران دہلی میں موت ہو گئی تھی۔

اترپردیش پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے متھرا میں پی ایف آئی سے مبینہ تعلقات رکھنے والے چار افراد کو گرفتار کیا ہے اور گرفتار افراد کی شناخت ملالم پورم کے صدیق کپن، مظفر نگر کے عتیق الرحمٰن، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے عالم کے طور پر ہوئی ہے۔

پی ایف آئی کے ساتھ مبینہ تعلقات رکھنے کے الزام میں چار افراد کے خلاف آئی پی سی اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

واضح ہو کہ پی ایف آئی پر ماضی میں اس سال کے شروع میں ملک بھر میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی مالی اعانت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) نے کیرالہ کے رپورٹر صدیق کپن کی نظربندی کو چیلینج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے اور اترپردیش حکومت کے الزام کی بھی تردید کی ہے جس میں اترپردیش حکومت نے صدیق کپن پر الزام لگایا ہے کہ وہ پی ایف آئی کا حصہ ہیں اور ہاتھرس میں بدامنی پھیلانے کے مقصد سے وہاں جا رہے تھے۔

یونین نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ صحافی کپن کو "حراست کے دوران تین بار پیٹا گیا اور اسے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا"۔

عدالت عظمیٰ میں دائر جوابی حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے دعویٰ کیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے ایک "بالکل جھوٹا اور غلط بیان" دیا ہے کہ کپن پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے دفتر سکریٹری ہیں کیونکہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔''

ملزم صدیق کپن نے خصوصی طور پر وکیل سے درخواست کی کہ وہ عدالت سے یہ درخواست کریں کہ وہ اسے نارکو تجزیہ ٹیسٹ یا برین میپنگ ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ یا کسی دوسرے سائنسی ٹیسٹ سے گزرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔

جوابی حلف نامہ اترپردیش حکومت کے ذریعہ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل داخل کرنے کے بعد دیا گیا جس میں اترپردیش حکومت کے ذریعہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدیق کپن ذات پات کی تفریق اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کے لئے ایک "صحافت کے لبادے" میں ہاتھرس جا رہے تھے۔

ریاست نے اپنے حلف نامے میں یہ الزام لگایا ہے کہ صدیق کپن پی ایف آئی کے آفس سیکرٹری ہیں اور وہ ایک کیرالہ سے تعلق رکھنے والے اخبار کا شناختی کارڈ دکھا کر کام کر رہے تھے جو سنہ 2018 میں ہی بند ہوچکا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کے یو ڈبلیو جے کی درخواست پر سماعت کی ہے جس میں صدیق کپن کی گرفتاری پر سوال اٹھائے ہیں اور ان کی ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے الزام لگایا ہے کہ ریاست نے "گمراہ کن حلف نامہ دائر کیا ہے، جس میں حقائق کو غلط بیان کرتے ہوئے ان کی غیر قانونی نظربندی اور بدنیتی پر مبنی قانونی کارروائی کا جواز پیش کیا ہے" اور ان کے خلاف الزامات کی حمایت کرنے کے لئے کوئی مواد موجود نہیں ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ملزم پاپولر فرنٹ کے ساتھ کسی بھی طرح براہ راست یا بالواسطہ یا اس کی کسی بھی سرگرمی سے نہیں جڑے ہوئے ہیں اور وہ دہلی میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کے لئے ایک ریٹائرڈ جج مقرر کرنا چاہئے۔

ایف آئی آر کے بغور مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملزم بے قصور ہے۔ گرفتاری کی تاریخ سے 29 دن تک ملزم کو اس کے کنبے سے ملنے نہیں دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

کے یو ڈبلیو جے کی جانب سے صدیق کپن کی گرفتاری سے متعلق دائر درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے ریاست نے پہلے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ یہ "برقرار نہیں ہے" اور درخواست گزار کے پاس "کوئی لوکس نہیں ہے" کیونکہ ملزم پہلے ہی اپنے وکیل اور رشتہ داروں سے رابطے میں ہے اور وہ خود اپنے وکلاء کے توسط سے کارروائی درج کر سکتے ہیں۔

صدیق کپن کو 5 اکتوبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس جارہے تھے، جہاں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی جس کی علاج کے دوران دہلی میں موت ہو گئی تھی۔

اترپردیش پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے متھرا میں پی ایف آئی سے مبینہ تعلقات رکھنے والے چار افراد کو گرفتار کیا ہے اور گرفتار افراد کی شناخت ملالم پورم کے صدیق کپن، مظفر نگر کے عتیق الرحمٰن، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے عالم کے طور پر ہوئی ہے۔

پی ایف آئی کے ساتھ مبینہ تعلقات رکھنے کے الزام میں چار افراد کے خلاف آئی پی سی اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

واضح ہو کہ پی ایف آئی پر ماضی میں اس سال کے شروع میں ملک بھر میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی مالی اعانت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.