اترپردیش میں اب ہفتے میں تین دن کا لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے، جس کے چلتے اس بار یوم مزدور پر ہونے والے پروگرام منعقد نہ ہوسکے، لیکن سوشل میڈیا پر ان کے حقوق کی بات خوب کی گئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب مزدوروں کے حقوق کی باتیں سبھی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں کرتی ہیں تو پھر مزدور آج بھی اتنے مجبور کیوں ہے؟ کیوں انہیں بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں؟
دارالحکومت لکھنؤ میں آج بھی مزدور سیویز لائن کی صاف صفائی ہو یا گھروں کی تعمیر، وہ بغیر کسی سیفٹی کٹ کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن ملک کے مختلف خطوں سے صفائی ملازمین کی موت کی خبریں آتی رہتی ہیں، اس کے باوجود ان کی حفاظت کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایک مزدور نے بتایا کہ ہمیں کوئی سامان دستیاب نہیں ہوتا، جس سے ہماری حفاظت ہو سکے، مجبوری میں کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ چاہتے ہوئے بھی اپنی حفاظت کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے ہمیں کام نہیں ملے گا۔ اسی لیے ہم لوگ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن زمینی حقائق بالکل برعکس ہوتی ہے۔
لکھنؤ کا زردوزی کاریگری اپنی الگ شناخت رکھتا ہے لیکن زردوزی کاریگر بہت کم مزدوری پر کام کرتے ہیں۔ بات چیت کے دوران شمیم نے بتایا کہ ہم لوگ پورے دن کام کر کے بمشکل 150 روپے کما پاتے ہیں۔ یہاں پر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب زردوزی کاریگری والے کپڑے بازار یا بڑے شوروم میں جاتے ہیں، تو وہاں پر ان کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے۔زری کا کام اب پرانے شہر تک محدود رہ گیا ہے کیونکہ اس میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور آمدنی بہت کم۔ سرکار زردوزی کاریگروں کے فلاح وبہبود کے لئے بڑے اعلانات کرتی ہے لیکن ان غریب مزدوروں کو کبھی اس کا فائدہ نہیں ملتا۔
حکومت بھلے ہی ٹویٹ کرکے یہ بتائیں کہ ہم مزدوروں کے فلاح وبہبود کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر تصویر بالکل الٹ دکھائی دیتی ہے۔