اے ٹی ایس کے انچارج سی جے ایم ساگر سنگھ نے اے ٹی ایس کے تفتیشی افسر کی درخواست پر ملزم عمر گوتم اور جہانگیر کو سات دنوں کی پولیس تحویل میں رکھنے کا حکم صادر کیا ہے۔
عدالت نے واضح کیا ہے کہ ملزم کے ریمانڈ کی یہ مدت بدھ کی صبح گیارہ بجے سے 30 جون کی صبح گیارہ بجے تک رہے گی۔ تفتیشی افسر کے ذریعہ دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں نہ صرف دیگر مجرموں کی بلکہ دیگر تنظیموں کے ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے۔ لہٰذا ملزم سے تفتیش ضروری ہے۔
اترپردیش پولیس کا مبینہ طور پر کہنا ہے کہ یہ دونوں خاص طور پر گونگے، بہروں، بچوں اور خواتین میں اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ پر اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد مذہب تبدیل کر چکے ہیں۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اس سلسلے میں سخت کارروائی کرنے سمیت تفتیشی ایجنسیوں سے گہرائی سے تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس میں ملوث ہونے والے افراد کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے انتظامیہ سے ملزمین کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
مزید پڑھیں:تبدیلی مذہب کے الزامات کو اسکول انتظامیہ نے خارج کردیا
'متنازع لو جہاد قانون سے لڑکیوں کی آزادی متاثر ہوگی'
'تبدیلیء مذہب قانون بنانے کا مقصد مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے'
اسی معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ایک ٹویٹ میں کہا، ”جبراً تبدیلی مذہب کرانے اور آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق جیسے الزامات بے بنیاد اور گھٹیا ہیں اور یہ عدالت میں ٹک نہیں پائیں گے۔ ان (عمر گوتم) پر لوگوں کو اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تبدیلی مذہب کوئی جرم نہیں ہے۔ آئین میں اس کی اجازت ہے۔"
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا، ”آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اے ٹی ایس کا دعویٰ فرضی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں ایسے سینکڑوں افراد بری ہوئے ہیں جن پر اس طرح کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایجنسیاں اکثر بے گناہ لوگوں کو پھنساتی رہتی ہیں۔"
واضح رہے کہ اترپردیش انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے گزشتہ روز دہلی کے جامعہ نگر علاقے سے مفتی قاضی جہانگیر اور عمر گوتم کو مبینہ تبدیل مذہب کے الزام میں گرفتار کیا ہے، ان کے خلاف لکھنؤ اے ٹی ایس پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔