ریاست کے محکمہ داخلہ نے انصاف اور قانون ڈپارٹمنٹ کو لو جہاد پر بنائے جانے والے قانون کا مسودہ بھیج دیا ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت کے دعوی کے مطابق اس قانون کا مقصد لالچ، دباؤ، دھمکی یا شادی کا دلاسہ دے کر تبدیل مذہب کی روک تھام ہے۔
ذرائع کے مطابق نئے قانون کے تحت لو جہاد قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 5سال کی قید ہوگی اور اس میں غیر ضمانتی دفعات عائد کی جائیں گی۔علاوہ ازیں اس نئے قانون میں بھاری جرمانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ غالب گمان ہے کہ یوپی حکوت یہ بل اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں پیش کرے۔ یوپی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آغاز اگلے مہینے ہوگا۔تاہم امکانات یہ بھی ہیں کہ جلدی کے خاطر حکومت بل سے پہلے اس پر آرڈیننس لے آئے۔ نئے قانون میں تبدیل مذہب کے لئے دباو ڈالنا مجرمانہ عمل ہوگا ۔
ریاستی وزیر قانون برجیش پاٹھک نے جمعہ کو یہاں بتایا کہ نئے قانون کا مسودہ جلد ہی عوامی سطح پر پیش کیا جائےگا۔ تاکہ اس ضمن میں عوام کی آراء بھی حاصل کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کے لئے اس طرح کے قانون کی ضرورت ہے۔متعدد لڑکیوں کو ان کے نام اور مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا گیا ہے جس پر اب سختی سے پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔
ریاستی وزیر محسن رضا نے بھی ریاستی حکومت کے اس فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ محسن رضا کے مطابق ایسے سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے اس نئے سخت قانون کی ضرورت ہے جو معصوم لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
وہیں دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڈ کے خاتون ونگ کی صدر شائستہ عنبر نے حکومت کے اس طرح کے فیصلے کی سخت تنقید کرتے ہوئے لوجہاد قانون کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے جاری بیان میں کہا کہ سیاسی اقدار ،ملکی آئین، ہندوستانی تہذیب و ملک کا تحفظ تمام شہریوں اور حکومتوں کا فریضہ ہے۔ لو جہا قانون بنا کر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔کسی مخصوص مذہب کو بنیاد بنا کر لوجہاد قانون لانا آئین کے ساتھ ساتھ ملک کی مشترکہ وراثت پر بھی ایک بڑا حملہ ہے۔