قابل ذکر ہے کہ ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس سے تعلق رکھنے والی ایک دلت خاتون فوت ہوئی تھی جب اس کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اسی صدیق کپن اسی متاثرہ سے ملنے جا رہے تھے تبھی انہیں یو پی پولیس نے گرفتار کر لیا۔
پیر کو چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کی سربراہی والی بنچ نے صحافیوں کی تنظیم کو اترپردیش حکومت کے اضافی حلف نامے پر اپنا جواب داخل کرنے کا موقع فراہم کیا اور اگلے سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں سماعت کی تاریخ مقرر کی۔
صحافتی تنظیم کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کی جانب سے جنوری کے تیسرے ہفتے کے بجائے پہلے ہفتے میں سماعت کیے جانے پر جسٹس اے ایس بوپنا اور وی رامسوبرمین پر مشتمل بنچ نے اتفاق نہیں کیا۔
اس سے قبل اتر پردیش حکومت نے بینچ کو صدیق کپن کی حراست سے متعلق ’’حیران کن ثبوت‘‘ سامنے آنے کی بات کی تھی جس بنا پر انہیں ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ سے کہا تھا کہ صدیق کپن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ریاست کیرالہ کے ایک روزنامہ کے ساتھ وابستہ ایک صحافی ہیں، تاہم تفتیش کے دوران یہ حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ وہ روزنامہ دو سال قبل ہی بند ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'جمہوریت کی بحالی کو جموں و کشمیر میں یقینی بنایا جائے'
کیرالہ یونین آف ورکنگ جنرلسٹس، جنہوں نے صدیق کپن کی گرفتاری کی سخت تنقید کی ہے، نے صدیق کپن کی ضمانت اور دیگر رعایات سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کا رخ کرنے سے انکار کیا تھا۔ یہ سفارش سپریم کورٹ نے کی تھی۔
صدیق کپن کو 5 اکتوبر کو ہاتھرس جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں ایک 19 سالہ دلت خاتون کی مبینہ طور پر گینگ ریپ کے بعد موت واقع ہوئی تھی۔
ریاست اتر پردیش کی حکومت نے خاتون کی راتوں رات آخری رسومات انجام دیں، جس کی ملک بھر میں مذمت کی گئی تھی۔