علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی صد سالہ تقریبات 2020 کے موقع پر سرسید اکیڈمی نے دیگر کتابوں اور مونوگراف کے ساتھ ایک مونوگراف صد سالہ ایڈیشن 'جسٹس سر شاہ محمد سلیمان' (حیات و خدمات)، مصنف ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی، کو بھی شائع کیا، جس کا اجراء خود وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سر سید ہاؤس میں کچھ روز قبل کیا۔
مصنف ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ' سر شاہ محمد سلیمان ایک اہم شخصیت ہیں یہ دو مرتبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عارضی وائس چانسلر رہے اور ایک مرتبہ مستقل وائس چانسلر رہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس بھی تھے اور جب سپریم کورٹ کا قیام عمل میں آیا تو ان کو پہلا بھارتی چیف جسٹس کا بھی شرف حاصل ہوا۔ عدلیہ میں ان کی اہم خدمات یہ ہے کہ انہوں نے مسلم پرسنل لاء پر کئی اہم فیصلے دیے۔
سر شاہ محمد سلیمان کا اے ایم یو سے تعلق یہ رہا کہ جب سر ضیاء الدین اور آفتاب صاحب کے درمیان اختلافات ہوا تو سر راس مسعود کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا لیکن اس وقت وہ لندن میں تھے تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم نہیں آتے جسٹس شاہ محمد سلیمان کو وائس چانسلر بنائیں تو پہلی مرتبہ 1929 میں عارضی وائس چانسلر بنے۔
اس کے بعد یہ ایک بار اور عارضی وائس چانسلر رہے پھیر اس کے بعد 1938 سے 1941 تک مستقل وائس چانسلر بنائے گئے اور وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے کئی اہم کام انجام دیئے ایک تو حکومت سے یونیورسٹی کے فنڈ میں اضافہ کروایا دوسرا یہاں صحافت کا کورس بھی انہوں نے شروع کروایا۔
اے ایم یو میں 1945میں یہاں پر سر ضیاء الدین نے ایک ہال کی بنیاد ان کے نام سے رکھی جو پیرون ہاؤس (Perron House) تھا فرانسیسی جنرل کی عمارت کے برابر میں نئی عمارت بنی اور اس کو سر شاہ سلیمان ہال کا نام عطا کیا گیا۔
اسعد فیصل فاروقی نے بتایا جسٹس سر شاہ محمد سلیمان پر کتاب لکھنے کا میرا مقصد یہ بھی تھا کہ نئی نسل کو یہ نہیں معلوم ہو کے سر شاہ سلیمان کون ہیں، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں ان کے اوپر چند مضامین کے علاوہ کوئی زیادہ مواد موجود نہیں ہے۔
یہ اہم شخصیت اس لیے بھی ہیں کہ آئن اسٹائن کی تھیوری کو انہوں نے متصادم کیا اور اپنی ایک نئی تھیوری بھی دیں تو افسوس یہ ہے کہ ان کے اوپر ابھی تک کوئی کام نہیں ہو پایا تھا۔ کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر سر سید اکیڈمی نے اس کتاب کو شائع کیا ہے اور وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کا اجراء کیا ہے۔ کتاب لکھنے کی وجہ یہ بھی تھی ان کو ہم لوگوں نے بھلا دیا اور ان کی کاموں پر خاص روشنی نہیں ڈالی تو میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے تمام کاموں کو اس کتاب میں یکجاں کردیا جائے۔
مزید پڑھیں:
اے ایم یو وفد کی اقوام متحدہ میں جی جی آئی ایم کے اجلاس میں شرکت
ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے مزید کہا میں اپنی اس کتاب کے لیے سرسید اکیڈمی کا شکر گزار ہوں بالخصوص ڈائریکٹر نقوی صاحب اور ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد صاحب کا کہ انہوں نے یہ پروجیکٹ مجھے عطا کیا۔