ETV Bharat / city

راجیہ سبھا الیکشن:بی ایس پی اراکین کی بغاوت، آزاد امیدوار کے جیت کے امکانات روشن

author img

By

Published : Oct 28, 2020, 7:58 PM IST

اترپردیش میں راجیہ سبھا کی 10 سیٹوں پر ہورہے انتخاب میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے 7 اراکین اسمبلی کی بغاوت و آزاد امیدوار کے پرچہ نامزدگی نے بی ایس پی امیدوار و نیشنل کوآرڈنیٹر رام جی گوتم کی مشکلیں بڑھا دی ہیں۔

آزاد امیدوار کے جیت کے امکانات روشن
بی ایس پی اراکین کی بغاوت

بہوجن سماج پارٹی کے 7 اراکین اسمبلی نے بدھ کو پارٹی امیدوار سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا۔بی ایس پی امیدوار کے خلاف بغاوت کرنے والے پانچوں اراکین اسمبلی اسلم علی، اسلم رائنی، مجتبی صدیق، حاکم لال بند، ہرگووند بھارگو، سشما پٹیل اور وندنا سنگھ ہیں۔ خبر ہے کہ ان اراکین نے سماج وادی سربراہ اکھلیش یادو سے منگل کی رات ملاقات کی تھی۔

اب سماج وادی پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے جیتنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔اگر بی ایس پی امیدوار7 بی ایس پی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسی صورت میں آزاد امیدوا بلا مقابلہ دیگر 9 امیدواروں کے ساتھ راجیہ سبھا پہنچ جائیں گے۔
لیکن وہیں دوسری جانب آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے پرچہ نامزدگی بھی دستاویزات کی جانچ کے دوران منسوخ ہوسکتی ہے۔ان کے پرچے میں درج نام میں کچھ خامی کا پتہ چلا ہے۔لیکن کس کا پرچہ نامزدگی خارج ہوگا آیا بی ایس پی امیدوار کا یا آزاد امیدوار کا اس کی صحیح تصویر دستاویزات کی جانچ کے بعد واضح ہوگی۔
راجیہ سبھا کے لئے امیدواروں کے نام واپسی کی آخری تاریخ 2 نومبر ہے جبکہ ووٹنگ 9 نومبر کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔جبکہ اسی دن شام 5 بجے سے ووٹوں کی کاونٹنگ ہوگی۔اور تنائج کا اعلان کیا جائے گا۔

ویڈیو

تاہم اب راجیہ سبھا کے لئے 11 امیدواروں کے میدان میں ہونے سے یوپی کا سیاسی پارہ گرم ہوگیا ہے۔اگر وکیل پرکاش بجاج نے آخری اوقات میں اپنا پرچہ داخل نہ کیا ہوتا تو تمام امیدوار،8 بی جے پی کے اور ایک ،ایک ایس پی و بی ایس پی سے بلامقابلہ راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوجاتے ۔
اب 11 امیدواروں کے انتخابی میدان میں ہونے سے بی ایس پی کو 18 اراکین اسمبلی کے ساتھ اپنے امیدوار کی جیت کے لئے مزید ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور یہ ووٹ این ڈی اے کے زائد بچے 17ووٹوں کے ذریعہ آسکتے ہیں۔

بی جے پی کے 8 امیدواروں کو ہی میدان میں اتارنے سے لکھنؤ میں یہ چہ میگوئیاں کافی زوروں پر ہیں کہ پارٹی ایک سیٹ مایاوتی کے لئے چھوڑی ہے۔بصورت دیگر کچھ کوششوں کے ذریعہ پارٹی اپنا ایک مزید امیدوار راجیہ سبھا کو بھیجنے میں کامیاب ہوسکتی تھی جیسا کہ اس نے اس سے پہلے 2018 کے انتخابات بی ایس پی امیدوار کو شکست دیتے ہوئے اپنے 9ویں امیدوار کی جیت کو یقینی بنایا تھا۔

راجیہ سبھا کے لئے بی ایس پی اور بی جے پی کے اس مبینہ اندرونی سمجھوتے اور بی جے پی کے تئیں مایاوتی کے نرم رویہ نے اس سوال کو کھڑا کردیا ہے کہ آیادونوں پارٹیاں 2022 کے اسمبلی انتخابات کی زمین تیار کررہی ہیں۔

سماج وادی پارٹی نے آفیشیلی اس بات کو واضح کیا ہے کہ بی ایس پی نے اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنے سے قبل سما ج وادی پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ایس پی ایم ایل سی ادے ویر ٹھاکر ے نے کہا کہ 'بی ایس پی نے اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنے سے پہلے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ایس پی نے 47اراکین اسمبلی کے ساتھ رام گوپال یاد وکو اپنے امیدوار بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پارٹی کے حریف کی حکمت عملی پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے اور اسی لئے پارٹی نے آزاد امیدوار کو میدان میں اتارا ہے پارٹی آزاد امیدوار کو جتانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

جبکہ اس ضمن میں بی ایس پی خیمے میں مکمل خاموشی اختیا رکررکھی ہے۔وہیں بی جے پی نے اپنی پوزیشن کو یہ کہتے ہوئے محفوظ کرلیا ہے کہ 304اراکین والی اسمبلی میں اس کے طاقت کے مطابق صرف 8 امیدوار جیت درج کرسکتے تھے اس لئے پارٹی نے ہردیپ سنگھ پوری، ارن سنگھ، ہریدوار دوبے،سابق یو پی ڈی جی پی برج لال،نیرج شیکھر، گیتا شاکیہ ،بی ایل ورما اور سیما دویدی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

راجیہ سبھا کا الیکشن جیتنے کے لئے ایک امیدوار کو پہلی ترجیح کے تحت 37 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔اس کے تحت بی جے پی کے آٹھ امیدواروں کی جیت کے بعد این ڈی اے اتحاد کی 17ووٹ باقی بچ جائیں گے۔پارٹی کے 9ویں امیدوار کو 19مزید ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
دلچسپ ہے کہ اگر آزاد امیدوار کے طور پر 11ویں امیدوار نے پرچہ نامزدگی داخل نہ کیا ہوتا تو بی ایس پی کے گوتم بلامقابلہ راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوجاتے۔اس طرح تکنیکی طور پر بی ایس پی کو بی جے پی ووٹوں کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔اور یہ ایسی صورت حال ہوتی جو عوامی حلقے میں دونوں پارٹیوں کو دوستانہ سیاسی ماحول کے لئے بالکل عین مطابق ہوتی۔

بی ایس پی سپریمو مایاوتی کا بی جے پی کے تئیں نرم رویہ پر کانگریس و سماج وادی پارٹی کی تنقید جگ ظاہر ہے۔جب سے مایاوتی نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ یوپی کے عظیم اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کی ہے بی ایس پی نے ریاستی و مرکزی حکومت کے خلاف ایک بار بھی سخت سیاسی رویہ اختیار نہیں کیا ہے۔
اب راجیہ سبھا کی سیٹ کے لئے الیکشن پر زور دینے کے پیچھے سماج وادی پارٹی کی منطق یہ ہے کہ این ڈی اے کے باقی ووٹرس بی ایس پی امیدوار کے حق میں ووٹ کریں اور پھر سماج وادی پارٹی بی ایس پی کو سیاسی طور پر گھیر سکے۔

بہوجن سماج پارٹی کے 7 اراکین اسمبلی نے بدھ کو پارٹی امیدوار سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا۔بی ایس پی امیدوار کے خلاف بغاوت کرنے والے پانچوں اراکین اسمبلی اسلم علی، اسلم رائنی، مجتبی صدیق، حاکم لال بند، ہرگووند بھارگو، سشما پٹیل اور وندنا سنگھ ہیں۔ خبر ہے کہ ان اراکین نے سماج وادی سربراہ اکھلیش یادو سے منگل کی رات ملاقات کی تھی۔

اب سماج وادی پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے جیتنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔اگر بی ایس پی امیدوار7 بی ایس پی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسی صورت میں آزاد امیدوا بلا مقابلہ دیگر 9 امیدواروں کے ساتھ راجیہ سبھا پہنچ جائیں گے۔
لیکن وہیں دوسری جانب آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے پرچہ نامزدگی بھی دستاویزات کی جانچ کے دوران منسوخ ہوسکتی ہے۔ان کے پرچے میں درج نام میں کچھ خامی کا پتہ چلا ہے۔لیکن کس کا پرچہ نامزدگی خارج ہوگا آیا بی ایس پی امیدوار کا یا آزاد امیدوار کا اس کی صحیح تصویر دستاویزات کی جانچ کے بعد واضح ہوگی۔
راجیہ سبھا کے لئے امیدواروں کے نام واپسی کی آخری تاریخ 2 نومبر ہے جبکہ ووٹنگ 9 نومبر کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔جبکہ اسی دن شام 5 بجے سے ووٹوں کی کاونٹنگ ہوگی۔اور تنائج کا اعلان کیا جائے گا۔

ویڈیو

تاہم اب راجیہ سبھا کے لئے 11 امیدواروں کے میدان میں ہونے سے یوپی کا سیاسی پارہ گرم ہوگیا ہے۔اگر وکیل پرکاش بجاج نے آخری اوقات میں اپنا پرچہ داخل نہ کیا ہوتا تو تمام امیدوار،8 بی جے پی کے اور ایک ،ایک ایس پی و بی ایس پی سے بلامقابلہ راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوجاتے ۔
اب 11 امیدواروں کے انتخابی میدان میں ہونے سے بی ایس پی کو 18 اراکین اسمبلی کے ساتھ اپنے امیدوار کی جیت کے لئے مزید ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور یہ ووٹ این ڈی اے کے زائد بچے 17ووٹوں کے ذریعہ آسکتے ہیں۔

بی جے پی کے 8 امیدواروں کو ہی میدان میں اتارنے سے لکھنؤ میں یہ چہ میگوئیاں کافی زوروں پر ہیں کہ پارٹی ایک سیٹ مایاوتی کے لئے چھوڑی ہے۔بصورت دیگر کچھ کوششوں کے ذریعہ پارٹی اپنا ایک مزید امیدوار راجیہ سبھا کو بھیجنے میں کامیاب ہوسکتی تھی جیسا کہ اس نے اس سے پہلے 2018 کے انتخابات بی ایس پی امیدوار کو شکست دیتے ہوئے اپنے 9ویں امیدوار کی جیت کو یقینی بنایا تھا۔

راجیہ سبھا کے لئے بی ایس پی اور بی جے پی کے اس مبینہ اندرونی سمجھوتے اور بی جے پی کے تئیں مایاوتی کے نرم رویہ نے اس سوال کو کھڑا کردیا ہے کہ آیادونوں پارٹیاں 2022 کے اسمبلی انتخابات کی زمین تیار کررہی ہیں۔

سماج وادی پارٹی نے آفیشیلی اس بات کو واضح کیا ہے کہ بی ایس پی نے اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنے سے قبل سما ج وادی پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ایس پی ایم ایل سی ادے ویر ٹھاکر ے نے کہا کہ 'بی ایس پی نے اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنے سے پہلے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ایس پی نے 47اراکین اسمبلی کے ساتھ رام گوپال یاد وکو اپنے امیدوار بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پارٹی کے حریف کی حکمت عملی پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے اور اسی لئے پارٹی نے آزاد امیدوار کو میدان میں اتارا ہے پارٹی آزاد امیدوار کو جتانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

جبکہ اس ضمن میں بی ایس پی خیمے میں مکمل خاموشی اختیا رکررکھی ہے۔وہیں بی جے پی نے اپنی پوزیشن کو یہ کہتے ہوئے محفوظ کرلیا ہے کہ 304اراکین والی اسمبلی میں اس کے طاقت کے مطابق صرف 8 امیدوار جیت درج کرسکتے تھے اس لئے پارٹی نے ہردیپ سنگھ پوری، ارن سنگھ، ہریدوار دوبے،سابق یو پی ڈی جی پی برج لال،نیرج شیکھر، گیتا شاکیہ ،بی ایل ورما اور سیما دویدی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

راجیہ سبھا کا الیکشن جیتنے کے لئے ایک امیدوار کو پہلی ترجیح کے تحت 37 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔اس کے تحت بی جے پی کے آٹھ امیدواروں کی جیت کے بعد این ڈی اے اتحاد کی 17ووٹ باقی بچ جائیں گے۔پارٹی کے 9ویں امیدوار کو 19مزید ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
دلچسپ ہے کہ اگر آزاد امیدوار کے طور پر 11ویں امیدوار نے پرچہ نامزدگی داخل نہ کیا ہوتا تو بی ایس پی کے گوتم بلامقابلہ راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوجاتے۔اس طرح تکنیکی طور پر بی ایس پی کو بی جے پی ووٹوں کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔اور یہ ایسی صورت حال ہوتی جو عوامی حلقے میں دونوں پارٹیوں کو دوستانہ سیاسی ماحول کے لئے بالکل عین مطابق ہوتی۔

بی ایس پی سپریمو مایاوتی کا بی جے پی کے تئیں نرم رویہ پر کانگریس و سماج وادی پارٹی کی تنقید جگ ظاہر ہے۔جب سے مایاوتی نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ یوپی کے عظیم اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کی ہے بی ایس پی نے ریاستی و مرکزی حکومت کے خلاف ایک بار بھی سخت سیاسی رویہ اختیار نہیں کیا ہے۔
اب راجیہ سبھا کی سیٹ کے لئے الیکشن پر زور دینے کے پیچھے سماج وادی پارٹی کی منطق یہ ہے کہ این ڈی اے کے باقی ووٹرس بی ایس پی امیدوار کے حق میں ووٹ کریں اور پھر سماج وادی پارٹی بی ایس پی کو سیاسی طور پر گھیر سکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.