معروف سوشلسٹ رہنما شرد یادو نے شہریت ترمیمی قانون کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ' ملک میں 'جنگل راج 'سے بھی براحال ہے اور 'غیر اعلانیہ ایمرجنسی' نافذ ہے اور پولیس کا اتنا ظلم تو ایمرجنسی میں بھی نہیں ہواتھا۔
شرد یادو نے لکھنؤمیں گزشتہ دنوں سی اے اے کے خلاف پرامن مظاہرے کے خلاف گرفتاری کے بعد رہا ہوئے انڈین پولیس سروس کے سابق افسر ایس آر داراپوری، سنسکرت کارکن دیپک کبیر، صدف ناز پون امبیڈکر کی حمایت میں پریس کانفرنس کیا۔
کانفرنس میں سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، سابق رکن پارلیمان ورنداکرات، سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ اور آر جے ڈی کے رکن پارلیمان منوج جھا کے علاوہ یہ چاروں کارکنان بھی موجود تھے، انھوں نے 19 دسمبر کے واقعہ کی تفصیل بتائی اور جیل میں ہوئے غیر انسانی سلوک اور بے رحمی کی پٹائی کی دردناک داستان سنائی ۔
مسٹر یادونے کہاکہ جولکھنؤمیں ہوا وہ ملک کے ہر کونے میں ہورہاہے ۔حالات جنگل راج سے بدتر ہیں۔بی جے پی کا ہم کیا نام دیں۔
ایمرجنسی میں ہم بھی جے پرکاش نارائن کےساتھ جیل گئے تھے لیکن ایسے حالات تو ایمرجنسی میں بھی نہیں تھے۔آج تو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔لیکن یہ ایمرجنسی نظر نہیں آتی ہے۔جیل میں اتنا ظلم تو پہلے نہیں ہواتھا۔
انھوں نے کہاکہ 45 سال سے ہم بھی دہلی میں ہیں ۔گزشتہ 70برسوں میں دہلی کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں نقاب پوش غنڈوں سے اس طرح طلبا کی پٹائی نہیں ہوئی تھی ۔
مسٹر یادو نے کہاکہ یہ پہلی حکومت ہے جواپنے ہی قانون کو نافذ کرنے کے لیے جلوس نکال رہی ہے ۔
مسٹر یچوری نے کہاکہ اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو جھوٹےمعاملات میں پھنسا کرنہ صرف جیل بھیجا بلکہ سرکاری املاک کے نقصان کے لیے غلط حلف نامہ پر لوگوں سے جبرا دستخط کروا کے انھیں ذمہ دارٹھہریا اور معاوضہ دینے کےلیے مجبور کیاگیا۔ ایسا تو انگریزوں کے زمانہ میں ہوتاتھا۔
انھوں نے بتایاکہ تشددصرف بی جے پی کی حکمراں والی ریاستوں میں ہوا اور اترپردیش میں سب سے زیادہ تشددہوا جس میں 21 افراد ہلاک ہوئے اور آج تک اس کے لیے کسی کوذمہ دار نہیں ٹھہرایاگیا۔
انھوں نے کہاکہ مسٹر یوگی نے تو پرامن مظاہرین سے انتقام لینے کی بات کہی اور مغربی بنگال کے بی جے پی انچارج نے تو احتجاجیوں کو کتے کی طرح مارنےکی بات کہی ۔جولوگ آئین کی کاپیاں اور ترنگا لےکر مظاہرہ کررہے تھے انھیں غدار بتایاگیا۔
سی پی آئی رہنما ڈی راجہ نے کہاکہ اس تشددکو حکومت کی حمایت حاصل ہے اور اس میں مسلمان ہی نہیں دلت، پسماندہ لوگ اور آدی واسی اور خواتین سبھی پر حملے ہورہے ہیں۔
آر جے ڈی رہنما منوج جھا نے کہاکہ اب ملک کے لیے، سماج کے لیے ،آپ کے لیے، ہم سب کے لیے برے دن آگئے ہیں۔ یہ انوکھا آندولن ہے، یہ خودسے پیداہواہے۔ اس آندولن کو ہم نے پیدانہیں کیاہے۔ لیکن یہ ایک دن کی لڑائی نہیں ہے بلکہ آرپار کی لڑائی ہے۔
مزید پڑھیں: سی اے اے اور جے این یو تشدد کے خلاف ذاکر حسین کالج میں احتجاج
آئی پی ایس داراپوری نے بتایاکہ انھیں 19دسمبر کو گھر پر پہلے نظر بندکیا گیااور اگلے دن 11بجے گرفتار بھی کیاگیا اور ہم پر تشددپھیلانے کے الزامات بھی لگائے گئے اور جیل میں کمبل تک نہیں دیاگیا۔
انھوں نے کہاکہ جیل میں پہلے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں دیاگیا اور اپنے وکیل کوبھی بلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔انھوں نے کہاکہ لکھنؤ میں تشددپھیلانے کاکام خود سنگھ کے لوگوں نے کیاتھا۔
دستک سنستھان کے مسٹر کبیر نے کہاکہ پریورتن چوک پر ہم نے پرامن مظاہرہ کیا اور لوگوں نے 'بھارت ماں کی جے' اور 'وندے ماترم' کے بھی نعرے لگائے لیکن انھیں جھوٹے طریقہ سے پھنسایا گیا اور انھیں جیل میں بری طرح مارا پیٹا گیا۔رات دس بجے جیل میں پینے کے لیے پانی دیاگیا۔
مزید پڑھیں: مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف مودی حکومت پر کانگریس کی سخت تنقید
انھوں نے کہاکہ 'اب لڑائی 'جمہوری بھارتی' اور 'فسطائی بھارتی' کے درمیان ہے۔ اس موقع پر مسٹرپون امبیڈکر اور محترمہ صدف ناز نے بھی اپنی اپنی دردبھری داستان سنائی۔