الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں 2011 کے بعد تعمیر کردہ غیر قانونی مذہبی مقامات کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کے تعمیرات کو منتظمین کسی دوسری جگہ پر منتقل کر کے تعمیر کرائے، اس کے بعد سے ہی انتظامیہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارہ بنکی ضلع انتظامیہ نے تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجد کو ایس ڈی ایم نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے منہدم کرا دیا تھا اور اس کا ملبہ مختلف دریاؤں میں بہا دیا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران 'الامام ویلفیئر ایسو سی ایشن' کے قومی صدر عمران حسن صدیقی نے کہا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہاں کے ایس ڈی ایم کو برخاست کیا جائے کیونکہ اس نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام افسران ترقی پانے کے لیے ایک خاص طبقے کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
عمران حسن صدیقی نے کہا کہ بارہ بنکی واقع غریب نواز مسجد میں ملکیت کا دعوی حکومت نے نہیں کیا تھا اور حکومت کی طرف سے اسے ثابت بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود 'دفعہ 133' کی کارروائی کرکے مسجد کو راتوں رات منہدم کروا دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ غریب نواز مسجد بہت قدیمی ہے اور 1968 سے یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ مسجد کا معاملہ کورٹ میں بھی زیر سماعت تھا اور کورٹ نے 31 مئی تک کسی بھی کاروائی پر روک لگا تھی۔ ایسے میں ایس ڈی ایم کو مسجد منہدم کرانے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟
عمران حسن صدیقی نے مزید کہا کہ ہم نے مسجد کے متعلق تمام کاغذات جمع کر لیے ہیں، اسی کی بنیاد پر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے لیکن اس سے پہلے یہ معاملہ وقف بورڈ ٹریبیونل میں داخل کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے علاوہ یوپی سنی وقف بورڈ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسجد کمیٹی اور دوسری تنظیمیں بھی کورٹ جا سکتی ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ مسجد دوبارہ تعمیر ہو اور ذمہ داران کو سخت سزا ملے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین زفر احمد فاروقی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ "بارہ بنکی کی سو سالہ مسجد کو من مانے و غیر قانونی طریقے سے منہدم کر دیا گیا ہے، جس کی میں مذمت کرتا ہوں۔ ضلع انتظامیہ اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ کا یہ قدم نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی ہے نیز ہائی کورٹ کے واضح حکم کی خلاف ورزی بھی ہے۔"
مسجد منہدم ہونے سے کچھ روز پہلے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے بتایا تھا کہ "بارہ بنکی کی جس مسجد کو سرکاری زمین پر تعمیر بتایا جا رہا ہے، وہ غلط ہے کیونکہ مسجد انتظامیہ کے پاس سبھی کاغذات موجود ہیں، جس میں درج ہے کہ وہاں پر ایک مسجد، اسکول، کنواں اور تحصیل ہے لہذا مسجد غیر قانونی نہیں ہے۔"