ETV Bharat / city

سیاست ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ رہی ہے: منور رانا - ہم دیکھیں گے پر منور رانا کا بیان

ممتاز انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے' پر آئی آئی ٹی کانپور میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ نظم ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں منور رانا نے آئی آئی ٹی پر سخت تنقید کی ہے۔

Munawwar Rana Statement On Faiz Nazm Ham Dekhenge
سیاست ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ رہی ہے: منور رانا
author img

By

Published : Jan 3, 2020, 11:21 AM IST

معروف شاعر منور رانا نے سخت انداز میں کہا کہ ہم آئی آئی ٹی کو قطعی اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ شاعری کا فیصلہ کرے۔ آئی آئی ٹی ایک لاکھ سائنٹسٹ پیدا کر سکتی ہے، لیکن وہ ایک لاکھ سائنٹسٹ مل کر بھی رامائن نہیں لکھ سکتے۔ جب رامائن لکھنا ہوگا تو ایک کوی اٹھے گا، ایک شاعر اٹھے گا، اس کا نام آچاریہ تلسی داس ہوگا۔

سیاست ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ رہی ہے: منور رانا

فیض کی نظم کے حوالے سے منور رانا نے کہا کہ انھوں نے یہ نظم ضیاءالحق کے زمانے میں کہی تھی۔ اور یہ نظم بہت زمانے سے لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں۔ خصوصا نکڑ ناٹک والے رت جگے کے طور پر استعمال کرتے تھے، کہیں کارخانوں میں مزدور کی حمایت میں یہ نظم گائی گئی۔ یہ نظم انقلاب کے لیے پڑھی جاتی رہی ہے۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو وہ رومانی نظم یا 'بہاروں پھول برساؤ' جیسے گیت نہیں گنگناتا۔ ایسی نظمیں گاتا ہے جو انقلاب پیدا کرے۔

منور رانا نے کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال پر اب شاعری اور آستھا شامل کی جانے لگی ہے کہ اس کا فیصلہ اب عدالتیں اور آئی آئی ٹی کریں گی۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن سیاست جو سوچتی ہے وہ مذہب کا تڑکا ضرور لگاتی ہے۔

شاعری کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ شاعری میں جو کہا جاتا ہے اس کا مطلب وہ بالکل نہیں ہوتا، خاص طور سے اردو شاعری میں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ اپنی محبوبہ سے ہندی میں یہ کہتے ہیں کہ تم ہتھیارَن لگ رہی ہو تو وہ آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ اگر آپ انگریزی میں کہتے ہیں کہ تم آج بالکل مرڈرر (Murderer) لگ رہی ہو تو وہ آپ سے آئندہ نہ ملنے کی قسم کھا لے گی۔ لیکن اگر آپ اس سے کہیں گے آج تو تم قاتل لگ رہی ہو تو وہ بولے گی چائے پییں گے اور کیسے ہیں آپ۔

تو یہ زبان کی خوبی ہوتی ہے کہ آپ محبوبہ کو قاتل کہتے ہیں اور وہ آپ کو چائے کے لیے پوچھتی ہے۔ یہ زبانوں کی خوبیاں ہوتی ہیں اس میں آئی آئی ٹی نہ پڑے تو اچھا ہے۔

منور رانا نے کہا کہ جو لوگ اس کا فیصلہ کریں گے وہ شاعری سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اس کا فیصلہ ہم لوگ کریں گے، فیض کے کنبہ والے کریں گے۔ میر غالب کریں گے یا جو ان کی نسلیں ہیں وہ کریں گی۔ آئی آئی ٹی کو قطعی حق نہیں ہے۔ اس معاملے میں صرف سیاست ہو رہی ہے، ہر چیز کو فرقہ وارانہ بنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ آج کچھ تذبذب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے وزیر اعلیٰ دفعہ 144 نافذ کر دیتے ہیں اور سب کو پکڑ کر شدت پسند اور دہشت گرد بول دیتے ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے اور بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اس دوران انھوں نے اپنا ایک شعر سنایا کہ۔۔۔۔
یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران ہو گئیں
اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہوگئیں

غور طلب ہے کہ آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی حمایت میں کیمپس میں مظاہرے کے دوران 17 دسمبر کو فیض احمد فیض کی مشہور نظم 'ہم دیکھیں گے' گائی گئی تھی۔ ہندو پسند تنظیم سے وابستہ افراد نے اس نظم کو ہندو مخالف قراردیا، جس کے بعد آئی آئی ٹی کانپور کی انتظامیہ حرکت میں آگئی اور فوراً ایک کمیٹی تشکیل دے کر جانچ کا حکم جاری کر دیا ۔

معروف شاعر منور رانا نے سخت انداز میں کہا کہ ہم آئی آئی ٹی کو قطعی اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ شاعری کا فیصلہ کرے۔ آئی آئی ٹی ایک لاکھ سائنٹسٹ پیدا کر سکتی ہے، لیکن وہ ایک لاکھ سائنٹسٹ مل کر بھی رامائن نہیں لکھ سکتے۔ جب رامائن لکھنا ہوگا تو ایک کوی اٹھے گا، ایک شاعر اٹھے گا، اس کا نام آچاریہ تلسی داس ہوگا۔

سیاست ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ رہی ہے: منور رانا

فیض کی نظم کے حوالے سے منور رانا نے کہا کہ انھوں نے یہ نظم ضیاءالحق کے زمانے میں کہی تھی۔ اور یہ نظم بہت زمانے سے لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں۔ خصوصا نکڑ ناٹک والے رت جگے کے طور پر استعمال کرتے تھے، کہیں کارخانوں میں مزدور کی حمایت میں یہ نظم گائی گئی۔ یہ نظم انقلاب کے لیے پڑھی جاتی رہی ہے۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو وہ رومانی نظم یا 'بہاروں پھول برساؤ' جیسے گیت نہیں گنگناتا۔ ایسی نظمیں گاتا ہے جو انقلاب پیدا کرے۔

منور رانا نے کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال پر اب شاعری اور آستھا شامل کی جانے لگی ہے کہ اس کا فیصلہ اب عدالتیں اور آئی آئی ٹی کریں گی۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن سیاست جو سوچتی ہے وہ مذہب کا تڑکا ضرور لگاتی ہے۔

شاعری کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ شاعری میں جو کہا جاتا ہے اس کا مطلب وہ بالکل نہیں ہوتا، خاص طور سے اردو شاعری میں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ اپنی محبوبہ سے ہندی میں یہ کہتے ہیں کہ تم ہتھیارَن لگ رہی ہو تو وہ آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ اگر آپ انگریزی میں کہتے ہیں کہ تم آج بالکل مرڈرر (Murderer) لگ رہی ہو تو وہ آپ سے آئندہ نہ ملنے کی قسم کھا لے گی۔ لیکن اگر آپ اس سے کہیں گے آج تو تم قاتل لگ رہی ہو تو وہ بولے گی چائے پییں گے اور کیسے ہیں آپ۔

تو یہ زبان کی خوبی ہوتی ہے کہ آپ محبوبہ کو قاتل کہتے ہیں اور وہ آپ کو چائے کے لیے پوچھتی ہے۔ یہ زبانوں کی خوبیاں ہوتی ہیں اس میں آئی آئی ٹی نہ پڑے تو اچھا ہے۔

منور رانا نے کہا کہ جو لوگ اس کا فیصلہ کریں گے وہ شاعری سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ اس کا فیصلہ ہم لوگ کریں گے، فیض کے کنبہ والے کریں گے۔ میر غالب کریں گے یا جو ان کی نسلیں ہیں وہ کریں گی۔ آئی آئی ٹی کو قطعی حق نہیں ہے۔ اس معاملے میں صرف سیاست ہو رہی ہے، ہر چیز کو فرقہ وارانہ بنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ آج کچھ تذبذب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے وزیر اعلیٰ دفعہ 144 نافذ کر دیتے ہیں اور سب کو پکڑ کر شدت پسند اور دہشت گرد بول دیتے ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے اور بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اس دوران انھوں نے اپنا ایک شعر سنایا کہ۔۔۔۔
یہ دیکھ کر پتنگیں بھی حیران ہو گئیں
اب تو چھتیں بھی ہندو مسلمان ہوگئیں

غور طلب ہے کہ آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی حمایت میں کیمپس میں مظاہرے کے دوران 17 دسمبر کو فیض احمد فیض کی مشہور نظم 'ہم دیکھیں گے' گائی گئی تھی۔ ہندو پسند تنظیم سے وابستہ افراد نے اس نظم کو ہندو مخالف قراردیا، جس کے بعد آئی آئی ٹی کانپور کی انتظامیہ حرکت میں آگئی اور فوراً ایک کمیٹی تشکیل دے کر جانچ کا حکم جاری کر دیا ۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.