ہائی کورٹ کی ہدایت پر یوگی حکومت ریاست اتر پردیش غیر قانونی تعمیر کردہ مذہبی مقامات کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ بارہ بنکی ضلع کی ایک مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جسے مسلم طبقہ ’’یکطرفہ کارروائی‘‘ قرار دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں 2011 کے بعد تعمیر کردہ غیر قانونی مذہبی مقامات کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کے تعمیرات کو منتظمین کسی دوسری جگہ پر منتقل کرکے تعمیر کرائے۔ حکمنامے کے بعد سے ہی انتظامیہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے لکھنؤ شہر کے قاضی مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ ’’حکومت اور انتظامیہ سے یہی اپیل ہے کہ جتنی بھی عبادت گاہیں ہیں، خواہ کسی بھی مذہب کی ہوں، انہی راستوں سے نہ ہٹایا جائے بلکہ حکومت ایسا راستہ تلاش کرے کہ کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی ہو اور عوام کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جو عبادت گاہیں بن گئی ہیں، وہ کسی بھی مذہب کی ہوں، ان کے ساتھ لوگوں کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں لہذا ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے۔
مولانا خالد رشید نے کہا کہ ’’بارہ بنکی کی جس مسجد کا مسئلہ چل رہا ہے، انتظامیہ کو چاہیے کہ اسے فوری طور پر حل کر لے۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ مسجد یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج ہے لہذا اسے ہٹانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت تھی کہ جو عبادت گاہیں عوامی مقامات میں بن گئی ہیں، جن میں سڑک، پارک یا سرکاری زمین شامل ہیں، انہیں ہٹا دیا جائے لیکن پرانی عبادت گاہوں پر سپریم کورٹ خاموش ہے۔
سنہ 2016 میں ہائی کورٹ کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ ’’2011 کے بعد تعمیر کردہ مذہبی مقامات کو ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کی عبادت گاہوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے، جس کی ذمہ داری منتظمین کی ہوگی۔‘‘
واضح رہے کہ بارہ بنکی کی ایک مسجد کو سرکاری زمین پر تعمیر کیے جانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے تاہم مسجد انتظامیہ کے پاس مسجد کے کاغذات موجود ہونے کے علاوہ مسجد سنی وقف بورڈ میں بھی درج ہے۔