ETV Bharat / city

'آخر کہاں جائیں ہم؟' - طویل عرصے سے غریب لوگ رہ رہے ہ

ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع صدر بازار کے قریب ایک قدیم بستی ہے۔ یہاں طویل عرصے سے غریب لوگ رہ رہے ہیں۔ یہ غریب لوگ اس بات سے ڈرے ہوئے ہیں کہ انہیں بنگلہ دیشی کہ کر یہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔

لکھنؤ میں پرانی بستی
author img

By

Published : Oct 28, 2019, 9:34 PM IST

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے اس بستی میں پہنچے اور لوگوں سے بات کی۔ ان غریبوں کا کہنا ہےکہ وہ بنگہ دیشی نہیں بلکہ بھارتی ہیں۔ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں جب سے این آر سی کی شروعات ہوئی ہے تب سے یہاں رہ رہے غریبوں میں ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ کبھی بھی ان کو بنگلہ دیشی بتا کر انہیں یہاں سے ہٹایا جا سکتا ہے یا ان کے آشیانے کو ان کے سر سے چھنینا جا سکتا ہے۔

اس بستی سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بیگم نے بتایا کہ 'یہاں غریب بستی ہے جنہیں بنگلہ دیشی کہا جا رہا ہے جبکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ ہم غلط ہیں تو اس کی تحقیقات کروا لے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس آبادی کو بسانے میں بخشی دیدی اور بنارسی داس جو کہ یوپی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، ان کا ہاتھا ہے۔'

مقامی باشندے امتیاز احمد نے بات چیت کے دوران کہا کہ 'ہم لوگ کوڑا کرکٹ کا کام کرکے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔ یہاں پر نا تو تعلیم کا کوئی بندوبست ہے اور نہ ہی ہمارے صحت کے لیے کوئی ہسپتال موجود ہے'۔

لکھنؤ میں پرانی بستی

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر یہاں سے نکالنے کی شازس ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'امر اجالا اخبار نے گذشتہ روز یہ خبر شائع کی تھی کہ یہاں پر بنگلہ دیشی رہتے ہیں اور وہ لوگ دہشت گردی میں بھی شامل ہو سکتے ہیں'۔

امتیاض کے مطابق اخبار نے مذید لکھا کہ 'اس آبادی کے قریب ہی گورنر ہاوس، اسمبلی ہاؤس ساتھ ہی دیگر سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔ لہذا یہاں کے رہنے والے لوگوں سے مزید خطرہ در پیش آ سکتا ہے'۔

شانتی دیوی جن کی عمر تقریبا سو برس ہونے کو ہے انہوں نے بتایا کہ 'ہماری پیدائش اسی بستی کی ہے۔ اب ہمیں بنگلہ دیشی کہا جا رہا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'آخر ہم کہاں جا کر مر جائیں؟؟؟'

انہوں نے بتایا کہ 'ہمارا پریوار کباڑ کا کام کر کے زندگی بسر کر رہا ہے اور اب ہمیں یہاں سے ہٹانے کی بات چل رہی ہے'۔ شانتی دیوی نے کہا کہ 'امر اجالا اخبار نے ہم پر جو الزام لگایا ہے جو کہ غلط ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت ہمیں ہٹانا ہی چاہتی ہے تو بہتر یہی ہے وہ ہمیں گولی مار دے تاکہ ان کی اور ہماری پریشانی دور ہو جائے'۔

بستی کی ضعیفہ مئناوتی نے کہا کہ 'اس پورے علاقے میں پہلے جنگلات تھے۔ ہم لوگ قدیم عرصے سے یہاں پر قیام پذیر ہے اور ہمیں حکومت اب ہٹانا چاہتی ہے جو کہ غلط ہے'۔

اس بستی کے آس پاس رہنے والوں کے مطابق اس بستی کو 2006 میں ایل آئی یو کے ذریعے تحقیقات کروائی گئی تھی جس کے بعد یہاں پر ایسا کوئی کام نہیں پایا گیا جو خطرناک ہو۔

علاقے کے پارسد نیرج یادو نے ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ یہاں پر سبھی کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ اور کاغذات موجود ہیں۔ سبھی کے پاس بجلی اور پانی کنکشن بھی ہے۔ لہذا یہاں پر کوئی بنگلہ دیشی موجود نہیں ہے۔ پھر بھی حکومت کو لگتا ہے تو وہ اس کی دوبارہ تحقیقات کروا لے۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے اس بستی میں پہنچے اور لوگوں سے بات کی۔ ان غریبوں کا کہنا ہےکہ وہ بنگہ دیشی نہیں بلکہ بھارتی ہیں۔ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں جب سے این آر سی کی شروعات ہوئی ہے تب سے یہاں رہ رہے غریبوں میں ایک خوف پیدا ہو گیا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ کبھی بھی ان کو بنگلہ دیشی بتا کر انہیں یہاں سے ہٹایا جا سکتا ہے یا ان کے آشیانے کو ان کے سر سے چھنینا جا سکتا ہے۔

اس بستی سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بیگم نے بتایا کہ 'یہاں غریب بستی ہے جنہیں بنگلہ دیشی کہا جا رہا ہے جبکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ ہم غلط ہیں تو اس کی تحقیقات کروا لے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس آبادی کو بسانے میں بخشی دیدی اور بنارسی داس جو کہ یوپی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، ان کا ہاتھا ہے۔'

مقامی باشندے امتیاز احمد نے بات چیت کے دوران کہا کہ 'ہم لوگ کوڑا کرکٹ کا کام کرکے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔ یہاں پر نا تو تعلیم کا کوئی بندوبست ہے اور نہ ہی ہمارے صحت کے لیے کوئی ہسپتال موجود ہے'۔

لکھنؤ میں پرانی بستی

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر یہاں سے نکالنے کی شازس ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'امر اجالا اخبار نے گذشتہ روز یہ خبر شائع کی تھی کہ یہاں پر بنگلہ دیشی رہتے ہیں اور وہ لوگ دہشت گردی میں بھی شامل ہو سکتے ہیں'۔

امتیاض کے مطابق اخبار نے مذید لکھا کہ 'اس آبادی کے قریب ہی گورنر ہاوس، اسمبلی ہاؤس ساتھ ہی دیگر سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔ لہذا یہاں کے رہنے والے لوگوں سے مزید خطرہ در پیش آ سکتا ہے'۔

شانتی دیوی جن کی عمر تقریبا سو برس ہونے کو ہے انہوں نے بتایا کہ 'ہماری پیدائش اسی بستی کی ہے۔ اب ہمیں بنگلہ دیشی کہا جا رہا ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'آخر ہم کہاں جا کر مر جائیں؟؟؟'

انہوں نے بتایا کہ 'ہمارا پریوار کباڑ کا کام کر کے زندگی بسر کر رہا ہے اور اب ہمیں یہاں سے ہٹانے کی بات چل رہی ہے'۔ شانتی دیوی نے کہا کہ 'امر اجالا اخبار نے ہم پر جو الزام لگایا ہے جو کہ غلط ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت ہمیں ہٹانا ہی چاہتی ہے تو بہتر یہی ہے وہ ہمیں گولی مار دے تاکہ ان کی اور ہماری پریشانی دور ہو جائے'۔

بستی کی ضعیفہ مئناوتی نے کہا کہ 'اس پورے علاقے میں پہلے جنگلات تھے۔ ہم لوگ قدیم عرصے سے یہاں پر قیام پذیر ہے اور ہمیں حکومت اب ہٹانا چاہتی ہے جو کہ غلط ہے'۔

اس بستی کے آس پاس رہنے والوں کے مطابق اس بستی کو 2006 میں ایل آئی یو کے ذریعے تحقیقات کروائی گئی تھی جس کے بعد یہاں پر ایسا کوئی کام نہیں پایا گیا جو خطرناک ہو۔

علاقے کے پارسد نیرج یادو نے ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ یہاں پر سبھی کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ اور کاغذات موجود ہیں۔ سبھی کے پاس بجلی اور پانی کنکشن بھی ہے۔ لہذا یہاں پر کوئی بنگلہ دیشی موجود نہیں ہے۔ پھر بھی حکومت کو لگتا ہے تو وہ اس کی دوبارہ تحقیقات کروا لے۔

Intro:اسے غربت کی بے بسی ہی کہا جائے گا کہ کسی کو بھی بنگلا دیشی کا الزام لگا کر انکے آشیانے کو تباہ و برباد کر دیا جائے، یہی زندگی کی حقیقت ہے۔


Body:اترپردیش کی دارالحکومت لکھنؤ شہر کے صدر بازار کے قریب ایک قدیم بستی ہے، جہاں پر غریب لوگ لمبے عرصے سے قیام پذیر ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے اس پورے معاملے پر گراؤنڈ رپورٹ کی جس کے بعد سچائی سامنے آئی ہے۔ ملک میں جب سے این آر سی کی شروعات ہوئی ہے تب سے غریب طبقے کے لوگوں میں ایک خوف پیدا ہو گیا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کبھی بھی ان کے آشیانے ان کے سر سے چھینے جاسکتے ہیں۔

فاطمہ بیگم نے بات چیت کے دوران کہا کہ یہاں پر غریب بستی ہے جنہیں بنگلہ دیشی کہا جارہا ہے جبکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ ہم غلط ہیں تو اس کی تحقیقات کروا لے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف ہوجائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس آبادی کو بسانے میں بخشی دیدی اور بنارسی داس جو کہ یوپی حکومت میں منسٹر رہ چکے ہیں، انہوں نے بسایا تھا۔

مقامی باشندے امتیاز احمد نے بات چیت کے دوران کہا کہ ہم لوگ کوڑا کرکٹ کا کام کرکے پریوار کا پیٹ پال رہے ہیں۔ یہاں پر نا تو تعلیم کا کوئی بندوبست ہے اور نہ ہی ہمارے صحت کے لیے کوئی ہسپتال موجود ہے۔

اس کے باوجود ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر یہاں سے نکالنے کی شازس ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امر ازالہ اخبار نے گذشتہ روز ج یہ خبر شائع کی تھی کہ یہاں پر بنگلہ دیشی رہتے ہیں اور وہ لوگ دہشت گردی میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

واضع رہے کہ اس آبادی کے قریب ہی گورنر ہاوس، اسمبلی ہاؤس ساتھ ہی دیگر سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔ لہذا یہاں کے رہنے والے لوگوں سے مزید خطرہ در پیش آسکتا ہے۔

شانتی دیوی جن کی عمر تقریبا سو برس ہونے کو ہے انہوں نے بتایا کہ ہماری پیدائش اسی بستی کی ہے۔ اب ہمیں بنگلہ دیشی کہا جارہا ہے۔ انہوں نے بے بسی میں کہا کہ آخر ہم کہاں جا کر مر جائیں؟؟؟

انہوں نے بتایا کہ ہمارا پریوار کباڑ کا کام کر کے زندگی بسر کر رہا ہے اور اب ہمیں یہاں سے ہٹانے کی بات چل رہی ہے۔ شانتی دیوی نے کہا کہ امر ازالہ اخبار نے ہم پر الزام لگایا ہے جو کہ غلط ہے۔

"اگر حکومت ہمیں ہٹا ہی چاہتی ہے تو بہتر یہی ہے وہ ہمیں گولی مار دے تاکہ ان کی اور ہماری پریشانی دور ہو جائے۔"

بستی کی ضعیفہ مئنا وتی نے کہا کہ اس پورے علاقے میں پہلے جنگلات تھے۔ ہم لوگ قدیم عرصے سے یہاں پر قیام پذیر ہے اور ہمیں حکومت اب ہٹانا چاہتی ہے جو کہ غلط ہے۔






Conclusion:واضح رہے کہ اس بستی کو 2006 میں ایل آئی یو کے ذریعے تحقیقات کروائی گئی تھی جس کے بعد یہاں پر ایسا کوئی کام نہیں پایا گیا جو خطرناک ہو۔ ایسا یہاں کے رہنے والے لوگوں نے ہمیں جانکاری دی۔

علاقے کے پارسد نیرج یادو نے ای ٹی وی بھارت سے فون پر بات چیت کے دوران کہا کہ یہاں پر سبھی کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ اور کاغذات موجود ہیں۔ سبھی کے پاس بجلی اور پانی کنکشن بھی ہے۔ لہذا یہاں پر کوئی بنگلہ دیشی موجود نہیں ہے۔

پھر بھی حکومت کو لگتا ہے تو وہ اس کی دوبارہ تحقیقات کروا لے۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.