ETV Bharat / city

بغیر گناہ کے آٹھ ماہ جیل

شہریت ترمیمی بل کے خلاف لکھنؤ میں پر تشدد احتجاج ہوا تھا، جس کے پیش نظر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کئی نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا تھا، توفیق بھی اسی میں سے ایک ہے، جسے آٹھ ماہ پانچ دن جیل میں گزارنا پڑا۔

ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا
ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا
author img

By

Published : Nov 18, 2020, 1:46 PM IST

ریاست اترپریش کے دارالحکومت لکھنؤ میں 19 دسمبر سنہ 2019 کو شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا۔

نتیجتاً کئی کار، موٹر سائیکل اور بسز کو نذر آتش کردیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کی شناخت کرکے جیل بھیجنا شروع کردیا تھا۔

بغیر گناہ کے آٹھ ماہ جیل

اسی ضمن میں توفیق بھی تھا جسے گرفتار کرلیا گیا، جو اس وقت 'نابالغ' تھا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران توفیق نے بتایا کہ 'احتجاج کے کچھ دن بعد پولیس اچانک میرے گھر پر آئی، اس وقت میرے بھائی بہن، والدین اور بڑے ابو کے لڑکے موجود تھے'۔

توفیق نے کہا کہ 'پولیس نے مجھے نہ پاکر میرے چچا زاد بھائی کو اٹھا لیا اور مجھے فون کرکے کہا گیا تھا کہ جب تم سرنڈر نہیں کردو گے اس وقت تک وہ تمہارے بھائی کو چھوڑیں گے'۔

توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا
توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا

توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا'۔

توفیق نے کہا کہ 'میں پریورتن چوک میں ہورہے احتجاج میں شامل نہیں تھا، جب لڑائی جھگڑا شروع ہوا، تب میں قیصر باغ سے واپس چلا گیا تھا میرے خلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فوٹو یا ویڈیوز ہے، اس کے بعد بھی مجھے آٹھ ماہ پانچ دن جیل میں گزارنا پڑا، جو میرے لیے بڑے خوفناک دن تھے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'میں بیٹری رکشہ چلاتا ہوں لیکن جیل جانے کے بعد گھر کی مالی حالت خراب ہوگئی تھی کیونکہ وکیل نے بہت پیسہ لیا لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو رہا تھا، اس کے بعد کانگریس کمیٹی کے چیئرمین (اقلیتی) شہنواز عالم سے میری ملاقات جیل میں ہوئی اور انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے مجھے آزاد کروایا، اس طرح اب میں رکشہ چلا کر اہل خانہ کے اخراجات پورا کررہا ہوں'۔

پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے
پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے

توفیق کے والد عبدالقادر نے بتایا کہ 'پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے، میں بار بار کہتا رہا کہ مجھے ویڈیو دکھا دیجئے میں یقین کر لوں گا، لیکن پولیس نے ویڈیو نہیں دکھایا اور نہ ہی میرے وکیل نے دکھایا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم لوگ بہت پریشان تھے اور ناامید ہوگئے تھے کیونکہ تمام جدوجہد کے بعد بھی میرے بیٹے کو ضمانت نہیں مل رہی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'پہلے وکیل نے کچھ نہیں کیا جبکہ 30-35 ہزار روپے خرچ ہو گئے، اس کے بعد کانگریسی رہنما شاہنواز عالم نے اپنے وکیل سعد صدیقی کے ذریعے توفیق کی ضمانت کروائی'۔

توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا
توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا

عبدالقادر نے کہا کہ 'ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا'۔

توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا؟ پہلے والے وکیل نے کچھ نہیں کیا جبکہ دوسرے وکیل نے 70 ہزار روپے مانگا، جس میں15 ہزار روپے دے دیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا'۔

شیبا پروین نے بتایا کہ 'وکیل نے دوبارہ 55 ہزار کی ضرورت بتادیا کیونکہ ڈاکٹر کی رپورٹ آ گئی تھی'۔

ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا
ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا

واضح رہے کہ توفیق جب گرفتار ہوا، اس وقت وہ نابالغ تھا اسی کے پیش نظر اسے آٹھ ماہ سے زیادہ جیل میں گزارنا پڑا۔

توفیق کی والدہ نے بتایا کہ 'کچھ روز پہلے ہمارے گھر تیسری نوٹس آئی، جسے دیکھ کر ہم لوگ بہت ڈر گئے کیونکہ ہمارے پاس رہنے کے نام پر صرف یہی جگہ ہے، جو ہم کرایہ دے کر رہتے ہیں، یہ ہمارا ذاتی مکان نہیں ہے ہم غریب ہیں، ہمارے شوہر بیٹری رکشہ چلاتے ہیں اور اب توفیق بھی چلانے لگا ہے، جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'توفیق کو اس گناہ کی سزا دی گئی، جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں، توفیق بتاتا ہے کہ اب میں پھر سے تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اپنے پریوار کے اخراجات بھی پورا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میری چھوٹی بہنیں ہیں، جو زیر تعلیم ہیں اور ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں'۔

خیال رہے کہ شاہنواز عالم بھی 14 دنوں کے لیے جیل گئے تھے، جہاں ان کی ملاقات توفیق سے ہوئی تھی، اور یہ ملاقات ہی رہائی کا ذریعہ بنی۔

ریاست اترپریش کے دارالحکومت لکھنؤ میں 19 دسمبر سنہ 2019 کو شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا۔

نتیجتاً کئی کار، موٹر سائیکل اور بسز کو نذر آتش کردیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے سخت کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کی شناخت کرکے جیل بھیجنا شروع کردیا تھا۔

بغیر گناہ کے آٹھ ماہ جیل

اسی ضمن میں توفیق بھی تھا جسے گرفتار کرلیا گیا، جو اس وقت 'نابالغ' تھا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران توفیق نے بتایا کہ 'احتجاج کے کچھ دن بعد پولیس اچانک میرے گھر پر آئی، اس وقت میرے بھائی بہن، والدین اور بڑے ابو کے لڑکے موجود تھے'۔

توفیق نے کہا کہ 'پولیس نے مجھے نہ پاکر میرے چچا زاد بھائی کو اٹھا لیا اور مجھے فون کرکے کہا گیا تھا کہ جب تم سرنڈر نہیں کردو گے اس وقت تک وہ تمہارے بھائی کو چھوڑیں گے'۔

توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا
توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا

توفیق نے کہا کہ 'اس کے بعد مجھے مجبورا سرنڈر کرنا پڑا'۔

توفیق نے کہا کہ 'میں پریورتن چوک میں ہورہے احتجاج میں شامل نہیں تھا، جب لڑائی جھگڑا شروع ہوا، تب میں قیصر باغ سے واپس چلا گیا تھا میرے خلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فوٹو یا ویڈیوز ہے، اس کے بعد بھی مجھے آٹھ ماہ پانچ دن جیل میں گزارنا پڑا، جو میرے لیے بڑے خوفناک دن تھے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'میں بیٹری رکشہ چلاتا ہوں لیکن جیل جانے کے بعد گھر کی مالی حالت خراب ہوگئی تھی کیونکہ وکیل نے بہت پیسہ لیا لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو رہا تھا، اس کے بعد کانگریس کمیٹی کے چیئرمین (اقلیتی) شہنواز عالم سے میری ملاقات جیل میں ہوئی اور انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے مجھے آزاد کروایا، اس طرح اب میں رکشہ چلا کر اہل خانہ کے اخراجات پورا کررہا ہوں'۔

پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے
پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے

توفیق کے والد عبدالقادر نے بتایا کہ 'پولیس نے میرے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے، میں بار بار کہتا رہا کہ مجھے ویڈیو دکھا دیجئے میں یقین کر لوں گا، لیکن پولیس نے ویڈیو نہیں دکھایا اور نہ ہی میرے وکیل نے دکھایا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم لوگ بہت پریشان تھے اور ناامید ہوگئے تھے کیونکہ تمام جدوجہد کے بعد بھی میرے بیٹے کو ضمانت نہیں مل رہی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'پہلے وکیل نے کچھ نہیں کیا جبکہ 30-35 ہزار روپے خرچ ہو گئے، اس کے بعد کانگریسی رہنما شاہنواز عالم نے اپنے وکیل سعد صدیقی کے ذریعے توفیق کی ضمانت کروائی'۔

توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا
توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا

عبدالقادر نے کہا کہ 'ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا'۔

توفیق کی والدہ شیبا پروین نے بتایا کہ 'ہم سب بہت پریشان تھے، مجھے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی کہ میرا بیٹا کب گھر آئے گا؟ پہلے والے وکیل نے کچھ نہیں کیا جبکہ دوسرے وکیل نے 70 ہزار روپے مانگا، جس میں15 ہزار روپے دے دیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا'۔

شیبا پروین نے بتایا کہ 'وکیل نے دوبارہ 55 ہزار کی ضرورت بتادیا کیونکہ ڈاکٹر کی رپورٹ آ گئی تھی'۔

ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا
ہم لوگ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بھی روپے وکیل کے نام پر نہیں لیا

واضح رہے کہ توفیق جب گرفتار ہوا، اس وقت وہ نابالغ تھا اسی کے پیش نظر اسے آٹھ ماہ سے زیادہ جیل میں گزارنا پڑا۔

توفیق کی والدہ نے بتایا کہ 'کچھ روز پہلے ہمارے گھر تیسری نوٹس آئی، جسے دیکھ کر ہم لوگ بہت ڈر گئے کیونکہ ہمارے پاس رہنے کے نام پر صرف یہی جگہ ہے، جو ہم کرایہ دے کر رہتے ہیں، یہ ہمارا ذاتی مکان نہیں ہے ہم غریب ہیں، ہمارے شوہر بیٹری رکشہ چلاتے ہیں اور اب توفیق بھی چلانے لگا ہے، جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'توفیق کو اس گناہ کی سزا دی گئی، جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں، توفیق بتاتا ہے کہ اب میں پھر سے تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اپنے پریوار کے اخراجات بھی پورا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میری چھوٹی بہنیں ہیں، جو زیر تعلیم ہیں اور ان کی شادیاں بھی کرنی ہیں'۔

خیال رہے کہ شاہنواز عالم بھی 14 دنوں کے لیے جیل گئے تھے، جہاں ان کی ملاقات توفیق سے ہوئی تھی، اور یہ ملاقات ہی رہائی کا ذریعہ بنی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.