اترپردیش کے ہاتھرس میں مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی شکار لڑکی کے اہل خانہ اور گواہوں کو تین سطحوں والی سیکیورٹی دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔
ریاستی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر حالیہ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاندان اور گواہوں کو تین سطحوں والی سیکیورٹی دی گئی ہے، اس کے لئے پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں کی سرحد کے ساتھ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں۔
اترپردیش حکومت نے کہا ہے کہ ضلع ہاتھرس کے چندپا کے رہنے والے متاثرہ (19) کے کنبے کو خاطر خواہ تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ خاندان میں متاثرہ والدین کے علاوہ دو بھائی، ایک بھابھی اور دادی شامل ہیں۔ ریاست کے محکمہ داخلہ کے خصوصی سکریٹری راجندر پرتاپ سنگھ کی جانب سے دائر حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ گاؤں کے موہانے پر آٹھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں، جن میں ایک انسپکٹر، ایک ہیڈ کانسٹیبل، چار کانسٹیبل اور دو خواتین کانسٹیبل شامل ہیں۔
اسی طرح کا فارمیشن متاثرہ کے گھر کے قریب بھی کیا گیا ہے جبکہ متاثرہ کے گھر کے باہر 15 حفاظتی اہلکار خیمہ زن ہیں۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ گواہوں کے گھر کے باہر دو شفٹوں میں چھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ متاثرہ کے گھر کے آس پاس آٹھ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ آس پاس کے علاقوں کو روشن کرنے کے لئے 10 سے 12 لائٹس لگائی گئی ہیں۔ یہ لائٹس پہلے سے لگی لائٹس کے علاوہ ہیں۔
عدالت عظمیٰ 15 اکتوبر یعنی جمعرات کو ہاتھراس کیس کی سماعت کرے گا۔ واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ریاستی حکومت سے بنیادی طور پر تین باتیں پوچھی تھیں، پہلی متاثرہ خاندان اور گواہوں کی حفاظت کے لئے کیا انتظامات کیے گئے ہیں؟ کیا غمزدہ کنبے کے پاس پیروی کے لئے کوئی وکیل ہے؟ اور الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمے کی کیا حیثیت ہے؟
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ کے اہل خانہ کی جانب سے سیما کشواہا مقدمہ لڑ رہی ہیں اور انہیں سرکاری وکیل بھی فراہم کیا جائے گا۔ نیز الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے ہاتھرس کیس میں اگلی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کردی ہے۔