یتیم خانہ اسلامیہ کولکاتا کا ایک ایسا ادارہ ہے جو گزشتہ 128 برسوں سے قوم کی خدمت کر رہا ہے۔اس کے باوجود یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ دوسری وجہوں سے بھی سرخیوں میں رہتا ہے۔
کئی بار یتیم خانہ میں نظم و نسق کو لیکر تنازعات ہوتے رہے ہیں۔یتیم خانہ اسلامیہ میں فی الحال 180 لڑکے اور 200 لڑکیاں رہتی ہیں۔
ان کی تعلیم اور رہائش اور دوسرے اخراجات یتیم خانہ برداشت کرتی یے۔کولکاتا کے سید صالح لیں میں لڑکوں اور شریف لین میں لڑکیوں کا ہاسٹل ہے۔
لیکن اس بار لاک ڈاؤن کے دوران یتیم خانہ کو بھی بند کر دیا گیا۔لیکن اس پر تنازعہ یہ ہو گیا کہ ان بچوں ایسے سخت حالات میں مالی مدد کی ضرورت تھی لیکن اس کے بجائے کہ ان کی مدد کی جاتی ان کو لاک ڈاؤن کے دوران ان کے گھر بھیج دیا گیا۔
جبکہ یہ بچے نہایت ہی غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔بچوں کو اس طرح مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دینے کے خلاف انتظامیہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے اعتراض کرتے ہوئے ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی جس میں ادارہ کے سیکریٹری پر من مانی کرنے کا الزام لگایا گیا۔
ان سے وضاحت طلب کی گئی۔اس کے علاوہ یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کی 6 بچیاں ابھی بھی اتر پردیش کے رام پور میں جامعتہ الصالحات میں زیر تعلیم ہیں ان کو بھی واپس نہیں لایا گیا ہے۔
ان سب کے لئے دوسرے ارکان سیکریٹری عبدالقیوم انصاری کو ذمہ دار ٹہرا رہے ہیں۔انتظامیہ کمیٹی کی ایک رکن عظمی عالم کا کہنا ہے کہ یتیم خانہ کو جس طرح سے کام کرنا چاہئے نہیں کیا گیا .رام پور میں زیر تعلیم ہماری چھ بچیوں کو واپس نہیں لایا گیا.
اس کے علاوہ بچوں کی مالی مدد نہیں کی گئی جس سے لوگوں میں نارضگی ہے۔سماجی کارکن منظر جمیل کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اور پھر امفان طوفان جیسے مشکل دور میں جب بچوں کو مدد کی سخت ضرورت تھی ان کو گھر بھیج دیا گیا .
نہایت افسوس کی بات ہے۔اس وقت یتیم خانہ اسلامیہ کلکتہ کو اپنی ذمہ داری اچھے دے نبھانا تھا اس کے برعکس کام کیا گیا۔ادارے میں مشاورت کے بجائے انفرادی فیصلے لئے جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔
ادارہ کے سیکریٹری کا کہنا ہے کہ حکومت کے ایڈوائزری کے مطابق کام کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ عید سے پہلے عام طور پر چھٹی ہو جاتی ہے۔
لیکن لاک ڈاؤن کے متعلق اندازہ نہیں ہونے کے وجہ سے ایسا ہوا انہوں نے کہا کہ بچوں کو دو ہزار روپئے ان کے گھر بھیج دیئے گئے ہیں۔اسکول کھلنے پر ان کو واپس بلا لیا جائے گا۔