فساد کی زد میں آنے سے سینکڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ پورے علاقے کو نذ آتش کر دیا گیا۔ فساد زدگان کا کہنا ہے کہ ' انہوں نے جو کپڑے پہن رکھے تھے صرف وہی جسم پر بچا ہوا ہے باقی سب کچھ جلا کر خاک کردیا گیا۔ ان کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے۔ متاثرین فی الحال ایک اسکول میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جہاں ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام لوکل گورننگ باڈی کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ہم پائی پائی کے محتاج ہوگئے ہیں ہم اپنے مستقبل کے تئیں انتہائی فکر مند ہیں کیوں کہ ہمارے ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔
سینکڑوں گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا، لاکھوں کی ملکیت پل بھر میں دھواں دھواں ہوگئی۔ تیلنی پاڑہ کے لوگوں کے مطابق یہ اب تک کا بد ترین فساد تھا، اس فساد میں خصوصی طور پر مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ کچھ مکانات اور دکانیں غیر مسلموں کے بھی جلائے گئے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک پوری بستی جلا کر خاک کر دی گئی ہے۔
تیلنی پاڑہ کے علاوہ بھدریشور کی طرف جو مسلمانوں غیر مسلموں کے علاقے میں برسوں سے مقیم تھے ان کا کافی نقصان ہوا ہے۔ ان فسادات میں بے گھر ہونے والوں کو بھدریشور پائک پاڑہ کے محسن پرائمری اسکول اور تیلنی پاڑہ کے فیض احمد فیض ہائی اسکول میں پناہ دی گئی ہے۔ جہاں مقامی انتظامیہ کی جانب سے ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ جہاں سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے موجود ہیں۔
پناہ گزیں کیمپوں میں موجود عورتیں اس بھیانک لمحے کو یاد کرکے آج بھی کانپ جاتی ہیں۔ محسن پرائمری اسکول میں پناہ لینے والی ایک متاثرہ خاتون سروری بی بی نے ای ٹی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی تیلنی پاڑہ میں ایک مسلمان کو کورونا ہونے کی خبر عام ہوئی تو ہمارے علاقے کے کچھ شرپسندوں کورونا میاں بولنا شروع کر دیا ہمیں سرکاری بیت الخلاء میں جانے سے روک دیا گیا۔ جس کے بعد سے حالت بگڑنے لگے اور رات کو اچانک ہمارے گھروں پر حملہ شروع ہو گیا۔ جہاں سے ہم کسی طرح ہم مقامی ہندو گوالا بھائیوں کی مدد سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے ایک دن بعد ایک بار پھر فساد شروع ہو گیا جس میں ہمارا سارا سامان لوٹ لیا گیا اور گھروں کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ ہم اسی اسکول میں ہیں ہمارے پاس جسم پر ایک کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔'
تیلنی پاڑہ کے فیض احمد اسکول میں موجود محمد مشتاق نے بتایا کہ جس دن فساد ہو رہا تھا ان کے گھروں اور دکانوں میں آگ لگائی جا رہی تھی بار بار سو نمبر پر فون کرنے کے باوجود بھی پولیس ان کی مدد کے لیے نہیں آئی۔ چار گھنٹے بعد پولیس آئی اگر مزید پانچ منٹ دیر ہو جاتی تو آج ہم زندہ نہیں ہوتے۔'
گڑھ دھار کے ہی ایک متاثر محمد عابد نے بتایا کہ' جس دن فساد ہوا اس دن انہوں نے اپنے علاقے میں ایک کھٹال میں بیرکپور کے ایم پی ارجن سنگھ کو دیکھا تھا۔ اس فساد میں اپنا سب کچھ گنوانے والی چاندنی رو رو کر انصاف کے لیے مدد طلب کر رہی تھیں۔ تیلنی پاڑہ فسادات میں دو باتین سامنے آئی ہیں، ایک یہ کہ یہ فسادف منصوبہ بند تھا اور دوسرا پولیس کی کارکردگی سوالوں کی زد میں ہے۔ اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔