سنگور (ہُگلی): آج ہم ضلع ہگلی کے ایک چھوٹے سے علاقے سنگور کی بات کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی فتح میں اس خطے نے کلیدی کردار ادا کیا اور بائیں محاذ کی 34 سالہ حکمرانی کا خاتمہ دراصل یہیں سے شروع ہوا۔
اُس وقت بائیں محاذ کی حکومت نے سنگور میں ٹاٹا موٹرس کے لیے مینوفیکچرنگ یونٹ لگانے کی منظوری دی تھی۔ جس کے لیے کسانوں کی اراضی بھی حاصل کی گئی تھیں، لیکن اپوزیشن لیڈر ممتا بنرجی کی سربراہی میں زرعی زمین تحفظ کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس طرح اراضی کے حصول کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک خاتون کی مبینہ جنسی زیادی اور قتل کے کے بعد اس معاملے نے اس وقت زیادہ زور پکڑا جب جو سنگور قصبے میں ٹاٹا کمپنی کو الاٹ کی گئی زرعی زمین کے نزدیک یہ سانحہ رونما ہوا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بائیں محاذ کے چند کارکنان نے ایک غیر شادی شدہ خاتون کی جنسی زیادتی کے بعد اسے قتل کر دیا تھا۔ جن پر الزام تھا وہ کارکنان الاٹ کی گئی اراضی کی نگرانی کرتے تھے'۔
زرعی زمین تحفظ کمیٹی کے بینر تلے سنگور میں ٹاٹا موٹرس پلانٹ کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں ٹاٹا کمپنی نے اپنے سنگور پروجیٹ کو کسی اور مقام پر منتقل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بعد میں کسانوں کو ان کی زمین واپس مل گئی، لیکن آج سنگور کی وہ زمین ویران صحرا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کسانوں کا کہنا ہےکہ اب یہاں کی زمین کاشت کے قابل نہیں رہی۔
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات 2021 میں سنگور انڈسٹرلائزیشن (صنعتی شعبے) کا معاملہ دوبارہ زیر بحث ہے۔ ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ سنگور کے لوگ بھی چاہتے ہیں مذکورہ زمین کو صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
بایاں محاذ - کانگریس اور آئی ایس ایف اتحاد اور بی جے پی انتخابی مہم کے دوران مستقل یہ مسئلہ اٹھا رہی ہیں۔ تاہم وزیر اعلی ممتا بنرجی پہلے ہی سنگور میں ایک صنعتی پارک بنانے کا اعلان کرچکی ہیں۔ لیکن حزب اختلاف کو لگتا ہے کہ اس پارک سے سنگور کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سنگور میں ترقی کی روشنی نظر آئے گی یا مستقبل میں بھی یہ علاقہ ویران صحرا ہی بنا رہے گا۔
سنہ 2011 میں بنگال سے بائیں محاذ حکومت کا خاتمہ ہوا اور ترنمول کانگریس کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ وزیر اعلیٰ بننے کے فورا بعد ہی ممتا بنرجی نے سنگور کے کسانوں کو 2،000 روپے ماہانہ اور 16 کلو چاول کے الاؤنس کا اعلان کیا، یہ اسکیم اب بھی جاری ہے۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو مذکورہ اراضی کو قابل کاشت بنانے اور کاشتکاروں کو واپس دینے کا حکم دیا تھا، لیکن زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کے لیے ریاستی حکومت کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور سنگور میں کاشتکاری ممکن نہ ہو سکی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنانے میں مزید کچھ برس لگیں گے۔ لیکن سنگور کے مقامی لوگ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے اور وہ لوگ وہاں صنعت اور کارخانے چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنگور میں صنعتی یونٹز کے قیام سے بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا۔ ریاست کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسمبلی انتخابات میں اس مسئلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایک مقامی کسان نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایکڑ سے زیادہ زمین ہے، جو زرخیز ہے لہذا وہ زمین کے حصول کے خلاف تحریک میں شامل ہوئے تھے، لیکن تب صورتحال مختلف تھی۔ آج وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب صرف صنعت ہی ہمیں بچاسکتی ہے۔'
ایک اور کسان نے بتایا کہ اس نے صنعتی منصوبے کے لیے چار ایکڑ اراضی رضاکارانہ طور پر دی تھی۔ دوسروں کی طرح انہیں بھی زمین واپس مل گئی۔ لیکن اب یہ زمین کاشت کاری کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس زمین کو صنعت کے لیے استعمال کیا جائے۔
سنگور سے سی پی ایم کے امیدوار سریجن بھٹاچاریہ نے کہا کہ اس وقت صنعت کے بارے میں بائیں بازو کی حکومت کا نظریہ ٹھیک تھا، اور اس کے نفاذ میں کچھ کوتاہیاں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اب سنگور میں نہ تو زراعت ہے اور نہ ہی صنعت۔ سنگور کو برباد کرنے کے بعد وزیراعلی ممتا بنرجی اب سنگور میں زراعت پر مبنی صنعتیں قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
سنگور سے سابق ایم ایل اے اور اس بار بی جے پی کے امیدوار ربیندر ناتھ بھٹاچاریہ بھی اب مقامی لوگوں کی طرح سنگور میں انڈسٹری کے حق میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سنگور کی اس ہاٹ سیٹ کس پارٹی کے قبضے میں جاتی ہے اور ریاست میں حکومت کس کی تشکیل پاتی ہے۔ اور سنگور میں صنعتی دور کا آغاز ہوتا ہے یا یہ مسئلہ انتخابی موضوع تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔