اردو میڈیم اسکولوں کے لیے برسوں سے کتابوں کی اشاعت کرنے والے کولکاتا کے ناشرین لاک ڈاؤن کی وجہ سے آج مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
ناشرین کا کہنا ہےکہ' رمضان بھی لاک ڈاؤن میں گزر گیا اور اب اسکول بند ہونے کی وجہ سے نہ بنگال بورڈ کے مدھیامک کے امتحانات کے نتائج آرہے ہیں اور نہ ہی نئے داخلوں کا سلسلہ شروع ہو سکا ہے۔ ناشرین کا کہنا ہے کہ جب نئے داخلے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو بڑے پیمانے پر کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ نہ اسکول کھل رہے ہیں نہ طلبا کتابیں خرید رہے ہیں۔ یہ پورا سیزن یونہی نکل رہا ہے۔
ہر برس نئے طلبا اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں اور جس کی وجہ سے کتابوں کی ضروت پڑتی ہے۔ برسوں سے کولکاتا کے کولوٹولہ میں موجود اردو کتابوں کے ناشرین ان کی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں۔ ہر سال جب اسکولوں میں نئے شیشن کا آغاز ہوتا ہے۔ تو بڑے پیمانے پر نئی کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے۔
اردو کتابوں کی اشاعت کرنے والے ناشرین کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصے سے ملک میں جاری لاک ڈاؤن کا اردو کتابوں کے کاروبار پر بھی پڑا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں حکومت کی جانب سے طلبا کو مفت کتاب دیے جانے کی وجہ سے پہلے ہی اردو کتابوں کے ناشرین مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ حکومت مغربی بنگال کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں پہلے جماعت سے آٹھویں جماعت تک مفت میں طلبا کو کتاب دی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ ممتا بنرجی کی حکومت میں شروع ہوا تھا جس کی وجہ سے اردو کتابوں کے ناشرین کے لیے مواقع کم ہو گئے۔ اس سے قبل طلبا کو کتابیں خریدنے کے لیے رقم دی جاتی تھی لیکن بدعنوانی کے خدشات کے پیش نظر حکومت نے طلبا کو کتابیں دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد سے ان اردو ناشرین کے کاروبار پر کافی اثر پڑا ہے۔ اب نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لیے ان ناشرین کو کتابوں کی اشاعت کی گنجائش رہ گئی ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس بار کتابوں کی اشاعت و خریداری کا شیشن لاک ڈاؤن میں گزر گیا۔
کولکاتا کے کولوٹولہ کے ایک ناشر عطا بک سنٹر کے مالک آصف رضوان نے بتایا کہ جب اسکولوں میں نیا شیشن شروع ہوتا ہے تو ہم تین قبل ہی اس کی تیاری شروع کر دیتے ہیں کتابیں شائع کرنے کے لیے تمام ضروری اشیاء پہلے ہی پریس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام سرگرمیوں کے بند ہونے سے ہمارا سارا مال پھنس گیا کافی رقم خرچ ہونے کے باوجود ہم کتابیں فروخت نہیں کر پائے اسکول بند ہونے سے طلبا کتابیں خریدنے کے لیے نہیں آ رہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اسکولوں اس بار رقم دے دے تاکہ اسکول ناشرین سے براہ راشت کتابیں خرید کر طلبا میں تقسیم کریں تاکہ ہماری کچھ مدد یو سکے۔ایک اور ناشر حافظ بک ڈپو کے مالک افتخار احمد نے بتایا کہ رمضان میں بڑے پیمانے پر قرآن شریف کے جلد و دینی کتابوں کی خریداری ہوتی ہے۔وہ بھی نہیں ہوا اور اب مساجد و مدارس بند ہونے کی وجہ سے کاروبار پر کافی آثار پڑا ہے اور ابھی آئندہ حلات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔