کورونا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے کے بعد سے تعلیمی اداروں کے دو سیشن لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئے۔ گزشتہ سال مکمل طور پر تعلیمی ادارے بند رہے۔ رواں برس بھی تعلیمی ادارے فی الحال بند ہیں لیکن اس کے باوجود کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سرگرمیوں اور جذبے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔
کلکتہ یونیورسٹی کی فعالیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سرگرمیاں بے مثال رہی ہیں چاہے وہ ایم اے کی کلاسز ،ایم فل یا پی ایچ ڈی سیکشن کا معاملہ ہو۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہی متعدد ریسرچ اسکالروں کو وائیوا کا اہتمام کیا گیا اور اسی دوران ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تفویض کی گئی۔ دوسری جانب ایم اے سال اول و دوم کی کلاسز بھی بلا ناغہ آن لائن تواتر سے جاری رہیں اور آن لائن کلاسز بھی جاری رہیں۔
اس سلسلے میں کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ندیم احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کا کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑا آن لائن کلاسس کے ذریعہ معمول کے مطابق ہی شعبہ کی سرگرمیاں جاری رہیں۔گرچہ آن لائن کلاسس کسی طور پر روایتی ذریعہ تعلیم یعنی یونیورسٹی جانا پھر کلاس میں بیٹھ کر پڑھنا اس کی برابری نہیں کر سکتی ہے لیلن موجودہ صورت حال میں روایتی ذریعہ تعلیم کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Nusrat Jahan: پارلیمنٹ سے نصرت جہاں کی رکنیت منسوخ کرنے کا مطالبہ
انہوں نے مزید کہا کہ کلکتہ یونیورسٹی نے گزشتہ چند برسوں میں نہایت ہی فعال ہوکر کام کیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں شعبے کا جذبہ اپنی تعلیمی خدمات کے حوالے سے سرد نہیں پڑا تواتر کے ساتھ ایم اے اور ایم فل کی کلاسز جاری رہیں۔ طلباء دلچسپی کے ساتھ کلاس میں حاضر رہے۔ امتحانات بھی وقت پر ہوئے آن لائن کلاسز ہونے کے باوجود طلباء نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس درمیان ہم نے پی ایچ ڈی سیکشن کی بھی سرگرمیاں جاری رکھی پی ایچ ڈی کے طلباء کا آن لائن وائیوا بھی ہوا اور اسی درمیان ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تفویض کی گئی۔
ایم اے اور ایم فل کی کلاسز بھی جاری رہیں۔ تواتر کے ساتھ شعبہ کے اساتذہ نے درس و تدریس کا سلسلہ بخوبی جاری رکھا طلباء نے دلچسپی کے ساتھ کلاسز میں شرکت کی ایم اے پہلے اور چوتھے سیمیسٹر کے امتحانات ہو چکے ہیں نتائج بھی آ گئے ہیں لیکن یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے طلباء مارک شٹ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ تمام لوگ چاہتے ہیں کہ حالات پھر سے معمول پر آجائیں اور روایتی نظام تعلیم ایک بار پھر سے بحال ہو جائے۔