رانا ایک بااثر تاجر ہیں اور 2007 سے جموں و کشمیر کی سیاست میں سرگرم ہیں اور قلیل عرصے میں ہی انکی پہچان جموں صوبے کے ایک اہم لیڈر کے طور ہوئی ہے۔
نئی دہلی میں ایک مختصر تقریب میں دیویندر رانا نے بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقعے پر انکے بڑے بھائی اور نریندر مودی حکومت میں وزیر مملکت برائے وزیراعظم دفتر ڈاکٹر جیتندر سنگھ رانا بھی موجود تھے۔ تقریب کی جو تصاویر جاری کی گئیں ان میں دونوں بھائی گلدستے اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ بھاجپا کے جموں کے دو سینئر لیڈر رویندر رینہ اور ڈاکٹر نرمل سنگھ مقابلتاً پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ تقریب میں مرکزی وزراء ہردیپ سنگھ پوری اور دھرمیندر پردھان بھی موجود تھے۔
رانا کی بھاجپا میں شمولیت کافی معنی خیز ہے اور اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ یہ پارٹی جموں صوبے میں اپنی مسلسل کھوتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے مستعد ہوگئی ہے۔ بھاجپا کو اگرچہ جموں میں 2014 کے اسمبلی انتخابات میں 25 نشستیں ملی تھیں جس کی بنیاد پر وہ سابق ریاست میں پہلی بار مخلوط حکومت کا حصہ بنی لیکن اسکے باوجود پارٹی کو کوئی ایسا لیڈر دستیاب نہیں ہوا جو ذہنی طور بالغ ہو اور پارٹی کو سنجیدہ خطوط پر چلانے کا گر جانتا ہو۔ رانا کو پارٹی میں شامل کرکے بھاجپا اس کمی کو پورا کرنا چاہتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیویندر رانا اور انکے بڑے بھائی کے درمیان سیاسی اختلاف تھا اور اسی وجہ سے وہ نظریاتی طور متصادم دو پارٹیوں کے ساتھ وابستہ تھے حالانکہ یہ اختلاف کبھی انکی ذاتی زندگیوں میں نمایاں نہیں ہوا۔
جیتندر رانا پیشے سے ڈاکٹر ہیں لیکن 2008 کی امرناتھ ایجی ٹیشن کے دوران انہوں نے جموں میں کشمیر مخالف مظاہروں اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں کی مبینہ اقتصادی ناکہ بندی کی مہم کی قیادت کی جس کے بعد وہ بھاجپا میں شامل ہوگئے۔
انہوں نے 2014 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات جیتے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں اپنے خصوصی حلقے میں شامل کیا۔ دوسری جانب دویندر رانا نیشنل کانفرنس میں ترقی کے زینے طے کرتے گئے۔ عمر عبداللہ کے دور میں انہیں وزیر مملکت کے پروٹوکول کے ساتھ وزیر اعلیٰ کا سیاسی صلاح کار نامزد کیا گیا۔ جب نیشنل کانفرنس کے پاس حکومت نہیں رہی تو انہیں پارٹی کا جموں صوبے کا سربراہ نامزد کیا گیا۔ پانچ اگست 2019 کو ریاست کی تنزلی اور اسے یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے اور ریاست کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے فیصلوں کے خلاف دویندر رانا اکثر نیشنل کانفرنس کے ترجمان کی حیثیت سے ٹی وی مباحث میں دیکھے جاتے تھے۔
دویندر رانا اصل میں صنعت کار اور تاجر ہیں۔وہ ہماچل پردیش اور جموں و کشمیر میں گاڑیوں کے بڑے ڈیلر ہیں اور ایک ٹیلیوژن نیٹ ورک کے مالک بھی ہیں۔ عمر عبداللہ کے ساتھ ذاتی مراسم کی وجہ سے وہ نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ لیڈرشپ میں اسوقت شامل ہوگئے جب فاروق عبداللہ نے پارٹی کی زمام اپنے بیٹے کے سپرد کردی۔ دوست بنانے میں مہارت رکھنے والے رانا نے بعد میں فاروق عبداللہ کو بھی اپنے شیشے میں اتار لیا حالانکہ پارٹی میں کئی سینئر لیڈر انکے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے پروفائل پر ناراض بھی نظر آتے تھے۔
وزیر اعلیٰ کے صلاح کار کی حیثیت سے دویندر رانا کی اہمیت کافی بڑھ گئی تھی۔ پارٹی کے سینئر ترین لیڈروں کو بھی وزیر اعلیٰ تک رسائی نہیں ملتی تھی جبتک کہ رانا اسکی منظوری نہ دیتے۔ دویندر رانا سیاسی طور کافی سرگرم رہے۔ انہیں پہلے قانون ساز کونسل کیلئے پارٹی نے نامزد کیا لیکن 2014 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے نگروٹہ کی سیٹ جیت لی حالانکہ اسوقت جموں خطے میں بھاجپا کا ڈنکا بج چکا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے بعض سینئر لیڈر البتہ رانا کے عروج پر نالان تھے اور انہیں ڈبل ایجنٹ تصور کرتے تھے لیکن پارٹی کے لیڈروں کے اصل مالکان کے سامنے انکی شکایت کرنے کی کسی کو جراًت نہیں ہوتی تھی۔
دویندر رانا کی بھاجپا میں شمولیت سے پارٹی کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو دانشمند ہے اور جموں و کشمیر میں ایک وسیع حلقے میں حلقہ احباب رکھتا ہے۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کو الوداع کہتے ہوئے بھی پارٹی یا اسکی قیادت کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق رانا کی ذریعے بھاجپا، نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت کو مزاکراتی عمل میں لاسکتی ہے اور مجوزہ اسمبلی الیکشن سے قبل سیاسی منظر نامے پر غیر معمولی تبدیلیوں کا آغاز بھی کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل کانفرنس لے ایک سینئر لیڈر ناصر اسلم وانی نے رانا کی چھلانگ کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ رانا نے اپنے سیاسی فیصلے کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ دوسری جانب رانا نے اپنا استعفیٰ پارتی صدر کو پیش کیا لیکن انکے درمیان کیا باتیں ہوئیں، اسکے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دیں۔ گانگریس کے ایک سینئر لیدر اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز نے رانا کی بھاجپا میں شمولیت کو ایک ’’بڑی سازش‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کا خدوخال بقول انکے مستقبل میں واضح ہوجائیں گے۔ انہوں نے اسے بی جے پی کے بڑے گیم پلان کا حصہ قرار دیا ہے۔ سوز کے مطابق بھاجپا نے جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں کو اپنے سیاسی خاکون مین رنگ بھرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے گریز کی مثال دی ہے جہاں نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں ماضی میں شامل رہے ایک لیڈر فقیر محمد خان کے بارے میں کہا ہے وہ اپنے فرزند سمیت کس طرح بی جے پی کو اپنے علاقے مین مقبول بنارہے ہیں۔