اس حادثے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ دو افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔ زخمیوں کو علاج کیلئے دواخانہ عثمانیہ منتقل کیا گیا۔ عمارت کے منہدم ہونے کی اطلاع پر جی ایچ ایم سی کی ریسکیو ٹیم، ایمبولنس، آتش فروغ عملہ کے علاوہ پولیس اور اعلی بلدی حکام جائے واقعہ پر پہنچے اور عمارت کا جائزہ لیتے ہوئے اسے حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
بلدی عہدیداروں نے ملبے کی صفائی کی تاہم اندھیرا ہونے کے باعث احتیاطی طور پر کام روک دیا گیا۔ کل صبح ملبے کی صفائی کی جائے گی۔
زونل کمشنر مشرف علی فاروقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دنوں ہوئی مسلسل بارش نے اس مخدوش عمارت کی دیواروں کو کمزور کر دیا تھا جس کے باعث اس کا کچھ حصہ گر پڑا۔ انہوں نےمزید بتایا کہ فوری طور پر اس عمارت کی مکمل جانچ کرواتے ہوئے اس کی تزئین کے اقدامات کئے جائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق یہ عمارت آصفجاہ ششم میر محبوب علی خان نے اپنے عہد میں مسافروں کی رہائش کیلئے تقریبا چھ سو مربع گز پر دو منزلہ کیسٹ ہاؤز تعمیر کروایا تھا۔ طویل عرصے تک یہ مسافروں کی پہلی پسند ہوا کرتا تھا تاہم پچھلی چار دہوں سے یہ عمارت استعمال میں نہیں تھی اس سے قبل بھی اس کا کچھ حصہ منہدم ہو چکا ہے۔ تب اس وقت کی حکومت نے اس کی تزئین کا تیقن دیا تاہم تلنگانہ تحریک کے باعث اس عمارت کی تزئین مکمل نہ ہو ہو پائی۔
قیام تلنگانہ کے بعد بھی حکومت نے تاریخی ورثوں پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کئی تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ اس عمارت کی تعمیر کو پورے سو برس مکمل ہو چکے ہیں نامپلی سرائے نے منہدم ہوکر حکام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔