ایسا لگتا ہے کہ ریاست بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر ایک بڑے طوفان کی آمد کے آثار ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ بی جے پی ہی نہیں این ڈی اے کے اندر ہر چیز کے نارمل نہ ہونے کی وجہ اندرونی بحران بھی ہے، بی جے پی کے دوسابق وزیر اور وزیر کے مضبوط دعویدار کو نظر انداز کرنا بی جے پی کے لیے سردرد بن گیا ہے۔

آس پاس کی حقیقت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اگر دھواں ہے تو کہیں آگ بھی ہے۔ وقت پر چنگاری کو ہوا ملی تو آگ بے قابو ہو سکتی ہے۔ تازہ ترین صورتحال سے یقینا اس کو مزید تقویت مل رہی ہے مگر تادیبی کارروائی کے خلاف ہر شخص کنٹرول میں بول رہا ہے۔
گیا کے دس اسمبلی حلقوں میں گیا شہری حلقہ سے آٹھویں مرتبہ جیت درج کرنے والے پریم کمار نے نتائج کے فوری بعد خود کو نائب وزیر اعلی کا دعویدار قرار دے کر بی جے پی میں طوفان کھڑا کر دیا تھا تاہم وہ بھی سا بق وزیر بنتے ہی خاموش ہوگئے ہیں۔
ان کی خاموشی ایسی کہ فون پر کسی سے بات نہیں کررہے ہیں ان کا موبائل، فون بھی بند ہے یہاں تک کے ان کے قریبیوں کے نمبر بدل گئے ہیں حالانکہ انہیں ابھی بھی امید ہے کہ کابینہ کی توسیع کردی گئی تو ان کے راستے کھل جائیں گے۔
ڈاکٹر پریم کمار نے محکمہ زراعت محکمہ تعمیرات سڑک اور محکمہ شہری ترقیات جیسی وزرات سنبھال چکے ہیں۔ اس بار بھی پریم گیا سے جیت کر کے اسمبلی تک پہنچے ہیں، 2015 کے انتخابات میں ڈپٹی سی ایم کی ریس میں پریم کمار پہلی پوزیشن پر تھے، اس وقت حکومت نہیں بنی لیکن نتیش کمار نے حکومت بناتے ہی پریم کمار کو کئی محکمے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
سشیل مودی کے نائب وزیراعلی کی ریس سے باہر ہوتے ہی پریم کمار کا ڈپٹی سی ایم بننا طے مانا جارہا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی وہ امید کی ڈور ٹوٹ گئی اور ششیل مودی کی جگہ تارکیشور پرساد اور رینو دیوی کو نائب وزیر اعلی بنا دیا گیا۔ پریم کمار نے اس بار وزیر کا عہدہ بھی کھو دیا ہے۔ مزید کاروائی نہ ہو اسکے لیے میڈیا سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ویشالی سانحہ: قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ایپوا کا ریاست گیر احتجاج
پریم کمار بہار بی جے پی میں سب سے سینئر رہنما ہیں۔ آٹھویں بار انہوں نے جیت درج کی ہے۔ وزیر نہیں بننے پر چند طرح کی چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں۔ گیا بی جے پی نے بھی پریم کمار کو وزیر بنائے جانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان سب کے بیچ ان کی خاموشی پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ آخر مجبوری کیا ہے کہ وہ خاموش ہیں